اسلام آباد (نیوز ڈیسک) امریکا نے امیگریشن سے متعلق اپنی پالیسیوں میں اہم اور سخت نوعیت کی تبدیلیاں کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ اب ویزا، گرین کارڈ یا کسی بھی طرز کی مستقل رہائش کی درخواست پر فیصلہ کرتے وقت درخواست گزار کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔
امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی ترجمان ٹریشیا میک لافلن نے ایک بیان میں کہا کہ سیکریٹری کرسٹی نوم نے واضح کر دیا ہے کہ امریکا ایسے افراد کو قبول نہیں کرے گا جو آزادیٔ اظہار کی آڑ میں یہود مخالف بیانیے یا شدت پسندانہ نظریات کو فروغ دیتے ہیں یا ایسی تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں جو دہشت گردی سے منسلک سمجھی جاتی ہیں۔
امریکا کی شہریت اور امیگریشن سروسز (USCIS) کے مطابق، اس نئی پالیسی کے تحت خاص طور پر ان افراد پر نظر رکھی جائے گی جو:
سوشل میڈیا پر یہود مخالف خیالات یا نفرت انگیز مواد شیئر کرتے ہوں
حماس، حزب اللہ یا حوثی ملیشیا جیسی تنظیموں کی حمایت میں بیانات دیتے ہوں
یا کسی ایسے عمل کا حصہ ہوں جو پرتشدد یا انتہا پسندی کو ہوا دیتا ہو
یہ تبدیلیاں فوری طور پر لاگو کر دی گئی ہیں، اور ان کا اطلاق نہ صرف اسٹوڈنٹ ویزا پر بلکہ ورک پرمٹ، گرین کارڈ اور دیگر امیگریشن پروگراموں پر بھی ہو گا۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے مطابق، اب تک 300 سے زائد غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کیے جا چکے ہیں اور یہ عمل روزانہ جاری ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غیر ملکیوں کو امریکا میں وہی حقوق حاصل نہیں جو امریکی شہریوں کو حاصل ہیں، اور ویزا دینا حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے۔
دوسری جانب کئی متاثرہ افراد کا مؤقف ہے کہ ان پر لگنے والے الزامات بے بنیاد ہیں، اور وہ صرف مظاہروں میں بطور شرکاء موجود تھے، نہ کہ کسی شدت پسندی میں ملوث۔ کولمبیا یونیورسٹی کے طالبعلم محمود خلیل کا معاملہ اس حوالے سے خاصا توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، جنہیں حراست میں لے کر لوزیانا منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں ان کے خلاف ڈی پورٹیشن کی کارروائی جاری ہے، باوجود اس کے کہ وہ امریکا کے قانونی مستقل رہائشی تھے۔
اس نئی پالیسی کے تناظر میں بعض تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان اداروں کی وفاقی فنڈنگ روک دی ہے جو مبینہ طور پر “یہود مخالف سرگرمیوں” کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے۔ اس اقدام پر ماہرین اکیڈمک آزادی پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ امیگریشن کے خواہش مند افراد کو اب سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیوں میں حد درجہ احتیاط برتنی ہو گی، کیونکہ کسی ایک غیر محتاط پوسٹ سے ان کے خواب چکنا چور ہو سکتے ہیں۔