واشنگٹن(این این آئی)مریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ 2023 میں 49 ہزار 500فراد نے خود کشی کی، یہ ابتدائی اعداد و شمار ہیں اور ان میں اضافہ ممکن ہے کیونکہ ابھی بعض ڈیٹا کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق جاری رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ 2023 کی حتمی رپورٹ کے مطابق تقریبا 49 ہزار 500 افراد نے اپنی جان لی۔ سی ڈی ایس کے حکام نے کہا کہ یہ تعداد گزشتہ 2 سال کے دوران خودکشیوں کی شرح سے کافی قریب ہے۔خودکشی کے واقعات کا مطالعہ کرنے والی کولمبیا یونیورسٹی میں پبلک ہیلتھ کی پروفیسرکیتھرین کیز نے کہا کہ امریکا میں کورونا وائرس کی وبا کے آغاز کے بعد سے دو سال کو چھوڑ کر خودکشی کی شرح تقریبا 20 سالوں سے بڑھ رہی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ خودکشی ملک میں اموات کی 11ویں بڑی وجہ ہے جو بعض دیگر عوامل کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے، ان عوامل میں ڈپریشن کی اعلی شرح، دماغی صحت کی خدمات کی محدود دستیابی اور اسلحہ کی با آسانی دستیابی شامل ہیں، 2022 میں ہونے والی تمام خودکشیوں میں سے تقریبا 55 فیصد آتشیں اسلحے سے ہوئیں۔پروفیسرکیتھرین کیز نے کہا کہ امریکا میں کسی کو بھی دماغی صحت تک پہنچنے کے لیے 988 ڈائل کرنے کی سہولت دستیاب ہے جس سے خودکشی کے واقعات کم ہونے کی امید ہے لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ یہ کتنا سود مند ثابت ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دس سے چودہ سال اور بیس سے چونتیس سال کی عمر کے لوگوں کی موت کی دوسری جبکہ پندرہ سے انیس سال کی عمر کے لوگوں کے لیے موت کی تیسری اہم وجہ خودکشی تھی۔ لڑکیوں اور خواتین کے مقابلے میں لڑکوں اور مردوں میں خودکشی کی تعداد اب بھی زیادہ ہے۔کسی بھی گروپ میں خودکشی کی سب سے زیادہ شرح پچھتر سال اور اس سے زیادہ عمر کے مردوں کی ہے، اس عمر کے ہر ایک لاکھ مرد وں میں سے تقریبا 44 خودکشی کرلیتے ہیں۔ خواتین کے کسی بھی گروپ کے مقابلے میں ادھیڑ عمر کی خواتین میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے جو فی ایک لاکھ تقریبا 9 ہے لیکن اس میں نوعمر اور نوجوان خواتین میں اضافہ دیکھا گیا اور گزشتہ دو دہائیوں میں اس گروپ میں خودکشی کی شرح دوگنا ہو گئی ہے۔ 23۔2022 اور میں خودکشی کی مجموعی اوسط شرح 14.2 فی ایک لاکھ تھی۔