واشنگٹن(این این آئی)امریکی حکام نے بتایا ہے کہ وہ گذشتہ ہفتے کے اختتام سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ ایران نے راکٹ لانچروں کو حرکت میں لانا شروع کر دیا ہے اور فوجی مشقیں بھی کر رہا ہے۔ یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ تہران آنے والے دنوں میں حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ادھر بائیڈن انتظامیہ اسرائیل پر ایران کے کسی بھی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ تاہم اسے اس کوشش میں نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
رواں سال اپریل میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر ڈرون طیاروں اور میزائلوں کی بوچھار روکنے میں کثیر القومی اتحاد کی تل ابیب کے لیے مدد کامیاب رہی تھی۔ایران پہلے ہی یہ عندیہ دے چکا ہے کہ وہ اسرائیل کو تہران میں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا جواب دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس بات نے بائیڈن انتظامیہ کے ذمے داران کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کے نزدیک اس مرتبہ ایرانی حملے کو لبنانی ملیشیا حزب اللہ اور تہران کے دیگر ایجنٹوں کی یلغار کا ساتھ مل سکتا ہے۔خطے میں وسیع جنگ چھڑنے سے غزہ میں فائر بندی کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی ان کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے جو پہلے ہی تعطل کا شکار ہیں۔
وائٹ ہائوس میں قومی سلامتی کے اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کو خطے کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ اس موقع پر دونوں شخصیات کو بتایا گیا کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ ایران اور حزب اللہ اسرائیل پر حملے کو کب ترجیح دیں گے اور ممکنہ حملے کی تفصیلات بھی سامنے نہیں آئی ہیں۔امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو میلر نے پیر کے روز بتایا کہ امریکا نے سفارتی راستوں سے بعض ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کو آگاہ کریں کہ مشرق وسطی میں جارحیت میں اضافہ تہران کے مفاد میں نہیں ہے۔گذشتہ ہفتے حماس کے سیاسی بیرو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایرانی دار الحکومت تہران میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس حملے نے اسرائیل سے انتقام لینے کی دھمکیوں کی آگ بھڑکا دی۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ غزہ کا تنازع مشرق وسطی میں ایک وسیع جنگ کی صورت اختیار کر لے گا۔ایران اسماعیل ہنیہ کی موت کا ذمے دار اسرائیل کو ٹھہراتا ہے جب کہ اسرائیل نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔