نیویارک (این این آئی)صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ کی عسکری طاقت کا استعمال آخری حربے کے طور پر ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ چین کے ساتھ سرد جنگ نہیں چاہتا، بلکہ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات سے ہٹ کر موسمیاتی تبدیلیوں اور کورونا وائرس جیسے بحرانوں سے متعلق عالمی
رہنمائی فراہم کرے گا۔بطور صدر جنرل اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں جو بائیڈن نے کہا کہ وہ تنازعات کے باوجود جمہوریت اور ممالک کے ساتھ اتحاد کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکہ ہر اس ملک کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے جو چیلنجز کو شیئر کرتے ہوئے پرامن حل کی جانب قدم اٹھائے گا اگرچہ دیگر معاملات پر شدید اختلافات رکھتے ہوں۔ویسے تو بائیڈن انتظامیہ چین کو اکیسویں صدی کا سب سے اہم چیلنج قرار دے چکی ہے لیکن جنرل اسمبلی کے خطاب میں صدر بائیڈن نے واضح کیا کہ امریکہ نئی سرد جنگ کا آغاز نہیں چاہتا اور نہ ہی دنیا کو بلاکس میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ بیس سالہ تاریخ میں پہلے امریکی صدر ہیں جن کے دور میں امریکہ کوئی جنگ نہیں لڑ رہا، بلکہ امریکہ سفارتکاری کے نئے دور کا آغاز کر رہا ہے جس میں عسکری طاقت کو آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ متواتر جنگوں کا وقت گزر گیا ہے، اب تواتر سے سفارتکاری کا دور ہے۔صدر جو بائیڈن نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال کرنے کی غرض سے چین، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ ایران کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعے جوہری معاہدہ بحال کیا جائے جس سے امریکہ 2018 میں دستبردار ہوا تھا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تنازع کا واحد اور بہترین حل خودمختار اور جمہوری فلسطینی کا قیام ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں مشرق وسطیٰ کے تمام لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ امن اور سلامتی کا مستقبل تلاش کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکی وابستگی شک و شبے سے بالاتر ہے اور ایک آزاد یہودی ریاست کے لیے ہماری حمایت بالکل واضح ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ دو ریاستی حل اسرائیل کے مستقبل کو جمہوری یہودی ریاست کے طور پر یقینی بنانے کا ایک بہترین طریقہ ہے تاکہ وہ ایک قابل عمل، خودمختار اور جمہوری فلسطینی ریاست کے ساتھ امن کے ساتھ رہ سکیں۔جو بائیڈن نے کہا کہ ہم اس وقت اس ہدف سے بہت دور ہیں لیکن ہمیں مستقبل میں پیشرفت کے امکانات سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔