منگل‬‮ ، 26 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مودی حکومت کو بڑا جھٹکا وہ ملک جس نے بھارت کی تیار کردہ کرونا ویکسین مفت میں بھی لینے سے انکارکردیا، غیر معیاری اور بے کار قرار دیدی

datetime 18  فروری‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد، لندن(مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی )کورونا وائرس کی کامیاب ویکسین بنانے کی دعویدار مودی حکومت کو بڑا جھٹکا ،میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی افریقہ کی حکومت نے بھارت میں تیار کردہ کورونا وائرس کی ویکسین کو غیر معیاری اور بیکار قرار دے کر مفت میں لینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔دوسری جانب برطانیہ میں کورونا وائرس کی ایک اور

نئی قسم کو دریافت کیا گیا ہے جس میں ہونے والی میوٹیشنز پریشان کن ثابت ہوسکتی ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایڈنبرگ یونیورسٹی کے محققین نے اس نئی قسم کو دریافت کیا جس کو بی 1525 کا نام دیا گیا ہے اور اسے جینوم سیکونسنگ کی مدد سے برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا اور ڈنمارک سمیت 10 ممالک میں دریافت کیا گیا۔اس نئی قسم کے 32 کیسز اب تک برطانیہ میں دریافت ہوچکے ہیں۔تحقیق ٹیم نے بتایا کہ اس نئی قسم کا جینوم گشتہ سال ستمبرمیں برطانیہ کے علاقے کینٹ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117 سے مماثلت رکھتا ہے اور اس میں اسپائیک پروٹین میں ہونے والی میوٹیشن ای 484 کے سمیت متعدد میوٹیشنز دیکھی گئی ہیں۔ای 484 کے میوٹیشن جنوبی افریقہ اور برازیل میں دریافت ہونے والی اقسام میں موجود ہے اور مانا جاتا ہے کہ اس سے وائرس کو اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرنے میں مدد ملتی ہے۔ریڈنگ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سائمن کلارک نے بتایا کہ ابھی یہ تو

واضح نہیں کہ متعدد میوٹیشنز سے کورونا وائرس کی بیمار کرنے کی صلاحیت پر کیا اثرات مرتب ہوئے، تاہم ای 484 کے میوٹیشن کچھ ویکسینز کے خلاف وائرس کو کسی حد تک مزاحمت کرنے میں مدد دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ابھی نہیں جانتے کہ یہ نئی قسم کس حد تک پھیل

سکے گی، تاہم یہ پھیلنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ویکسین یا سابقہ بیماری سے حاصل ہونے والی مدافعت کمزور ہوسکتی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے خیال میں نئی اقسام بالخصوص ای 484 کے میوٹیشن والی اقسام کے حوالے سے ٹیسٹنگ کا عمل

تیز کرنے کی ضرورت ہے۔کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر روی گپتا نے اس بات سے اتفاق کیا کہ نئی قسم کی روک تھام کے لیے ٹیسٹنگ کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب فرانسس کریک انسٹیٹوٹ کے پروفیسر جوناتھن اسٹوی نے کہا کہ اگرچہ نئی قسم پھیل سکتی ہے،

تاہم زیادہ ٹیسٹنگ کا عمل بھی آسان نہیں ، کیونکہ کووڈ کے پھیلا ئوسے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار افراد ہوسکتا ہے کہ آگے نہ آئے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ ٹیسٹ کے اخراجات برداشت نہ کرپائے۔انہوں نے کہا کہ وہ نئی اقسام میں ملتی جلتی میوٹیشنز دیکھ کر حیران نہیں۔مگر ان کا کہنا تھا کہ ایک جیسی میوٹیشنز والی متعدد اقسام کی دریافت پریشان کن ہے کیونکہ وہ موجودہ ویکسینز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہیںانہوں نے کہا کہ ای 484 کے وائرس میں آنے والی اہم ترین تبدیلی ہے جس کو دیکھتے ہوئے ویکسینز کو کچھ بدلنا پڑسکتا ہے۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…