اسلام آباد،لندن(مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی )برازیل کے صدر جیئر بولسونارو کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین لگانے سے انسان مگر مچھ بن سکتا ہے یا خواتین کی داڑھی نکل سکتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ ایک ہفتے سے برازیل میں فائزر اور بائیون ٹیک کی بنائی گئی ویکسین
کی آزمائش جاری ہے اور برازیلی صدر اسے ملک بھر میں مفت فراہم کرنے کا بھی اعلان کرچکے ہیں تاہم اب ان کی جانب سے متضاد بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب وہ ملک بھر میں کورونا ویکسینیشن مہم کا افتتاح کررہے تھے۔ جولائی میں کورونا کا شکار ہونے والے جیئر بولسوناروکا کہنا تھاکہ وہ خود کورونا کی ویکسین نہیں لگوائیں گے۔دوسری جانب کووڈ 19 سے شکار ہر 10 میں سے ایک فرد کو اس بیماری کی علامات کا سامنا 12 ہفتے یا اس سے بھی زائد عرصے تک ہوتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بات برطانیہ کے محکمہ شماریات(او این ایس)کی جانب سے جاری ابتدائی رپورٹ میں سامنے آئی، جس میں لانگ کووڈ کی موجودگی کا جائزہ لیا گیا تھا۔لانگ کووڈ کی اصطلاح ایسے مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو ابتدا میں تو بیماری کو شکست دے دیتے ہیں، مگر ان کی علامات کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی برقرار رہتی ہیں۔اس حوالے سے حالیہ مہینوں میں کئی تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں جس میں لانگ کووڈ کا جائزہ لیا
گیا، مگر برطانوی ادارے کی تحقیق اس حوالے سے اب تک کا سب سے بڑا تحقیقی کام ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس حوالے سے کام ابھی جاری ہے، تاہم کچھ اہم تفصیلات اس حوالے سے ضرور بتائی گئی ہیں۔اس مقصد کے لیے برطانیہ کے لاکھوں افراد کے انفیکشن سروے کے
ڈیٹا کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ نومبر 2020 کے آخری ہفتے کے دوران ملک میں ایک لاکھ 86 ہزار افراد کو لانگ کووڈ کی علامات کا سامنا تھا، جن کا دورانیہ 5 سے 12 ہفتے کے درمیان تھا۔سب سے عام علامت تھکاوٹ تھی، جس کے بعد کھانسی، سردرد، سونگھنے یا چکھنے کی
حس سے محرومی، گلے کی سوجن، بخار، سانس لینے میں مشکلات، متلی، ہیضہ اور پیٹ درد نمایاں تھے۔اس رپورٹ کے حوالے سے ایکسٹر میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر ڈیوڈ اسٹرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی ڈیٹا تشویشناک ہے۔دیگر رپورٹس میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں مختلف ذہنی
مسائل جیسے انزائٹی یا ڈپریشن کا خطرہ بیماری کے 3 ماہ کے اندر زیادہ ہوتا ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تیکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔