جنیوا(آن لائن) عالمی ادارہ تجارت نے قرار دیا ہے کہ امریکہ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ کے دوران چین پر طے شدہ ریٹ سے زیادہ اربوں ڈالر کے ٹیرف عائد کر کے عالمی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی کی جبکہ واشنگٹن نے فیصلے پر اظہار برہمی کیا ہے۔ عالمی ادارہ تجارت کے تین رکنی پینل کا کہنا تھا کہ چین کی بعض مصنوعات پر اضافی ٹیکس یا محصولات
عائد کرنے کا عمل غیر قانونی ہے۔پینل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اْس وقت اس بات کی مکمل وضاحت نہیں کی تھی کہ یہ اقدام کیوں کیے گئے تھے۔پینل نے تجویز دی ہے کہ امریکہ اپنے اقدامات کو اپنی ذمہ داریوں کے مطابق بنائے جبکہ دونوں ممالک کو اپنے تنازع کو مجموعی طور پر حل کرنا چاہیے۔دوسری جانب امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لگتھائیزر نے عالمی تجارتی ادارے کی رپورٹ کے جواب میں کہا ہے کہ، پینل کی رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے جو ٹرمپ انتظامیہ چار سال سے کہہ رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ عالمی ادارہ تجارت چین کے ٹیکنالوجی سے متعلق نقصان دہ سرگرمیوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکافی ہے۔ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے امریکہ کے عائد کردہ ٹیرف پر کم ہی فوری اثر پڑے گا اور یہ ایک قانونی عمل کی شروعات ہے جو سالوں تک چل سکتا ہے اور جس کے نتیجے میں عالمی ادارہ صحت جوابی اقدامات کی منظوری دے سکتا ہے۔ لیکن چین نے پہلے سے ہی یہ اقدامات کر لیے ہیں۔ممکن ہے کہ امریکی حکومت عالمی ادارہ تجارت کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے کو لے کر عدالت سے رجوع کرے جس سے یہ معاملہ غیر معینہ مدت تک کے لیے قانونی کارروائیوں میں داخل ہوجائے گا کیونکہ امریکہ نے عالمی ادارہ تجارت کی قانونی باڈی میں ججز کی تقرری روک رکھی ہے جس کی وجہ سے کیسز کی سماعت کے لیے ججز کی جو تعداد ہونی چاہیے وہ نہیں ہے۔
امریکہ کی سابق تجارتی نمائندہ مارگریٹ سیکوٹا کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے فیصلے سے ممکن ہے کہ ٹرمپ کے ادارے کو چھوڑنے کے فیصلے کو بڑھاوا ملے یا امریکہ کے ادارے کی اصلاحات سے متعلق دلائل کو سہارا ملے۔ان کا مزید
کہنا تھا کہ اس سے ٹرمپ انتظامیہ کو عالمی ادارہ صحت کو متروک قرار دینے کی وجوہات ملیں گی اور وہ سوال کرے گی کہ اگر وہ ذہنی املاک کے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتے تو ان کی معیشت کو آگے لے جانے میں کیا پوزیشن ہوگی۔