اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’پلیز مجھے بتا دیں ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔فلسطینیوں کی چھ نسلیں جلاوطنیوں اور کیمپوں میں پیدا ہوئی ہیں‘ یہ بے چارے گولیوں کی آواز میں آنکھیں کھولتے ہیں اور لاشوں کے انبار میں آنکھیں بند کرتے ہیں اور 58 اسلامی ملکوں میں سے کسی ملک نے آج تک کھل کر ان کا ساتھ نہیں دیا‘ کوئی کندھے سے کندھا ملا کر ان کے
ساتھ کھڑا نہیں ہوا‘ سوائے ایران کے‘ ایران 42سال سے شیعہ فلسطینیوں‘ شیعہ لبنانی اور شیعہ شامیوں کے ساتھ کھڑا ہے جب کہ باقی تمام ملکوں کی حمایت زبانی کلامی‘ مذمتی اور قربانی کے گوشت تک محدود ہے۔عالم اسلام کو اگر واقعی فلسطینیوں کا احساس ہے تو پھر اس نے آج تک ان کے لیے کیا کیا؟ ہم پاکستانی بھی ایک طرف فلسطینیوں کی محبت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے اور دوسری طرف ہم نے اردن کے شاہ حسین کے حکم پر1970ء میں فلسطینیوں پر ٹینک بھی چڑھا دیے تھے اور ان پر طیاروں سے بمباری بھی کی تھی‘ یہ خدمات جنرل ضیاء الحق نے بریگیڈیئر کی حیثیت سے سرانجام دی تھیں جب کہ ائیرفورس کی طرف سے شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی نے فلسطینیوں پر بمباری کی تھی۔یہ واقعہ آج بھی فلسطینیوں کی تاریخ میں ”بلیک ستمبر“ کہلاتا ہے اور اس کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق کے دور میں یاسر عرفات کے پاکستان سے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے‘ پی ایل او کی قیادت اس دور میں ہمارے سفیروں تک سے ملاقات نہیں کرتی تھی‘ دوسرا اسرائیل کے گرد22اسلامی ملک ہیں‘ ان کی آبادی اسرائیل کی کل آبادی سے تیس گنا زیادہ ہے‘ یہ عسکری قوت میں بھی کئی گنا بڑے ہیں لیکن آج تک ان 22 ملکوں نے اپنے بھائیوں کے لیے کیا کیا؟فلسطینی 72 سال سے مر رہے ہیں اوربرادر اسلامی ملک ان کی لاشوں کے عوض امریکا اور یورپ سے مراعات لے رہے ہیں اوریہ برادر اسلامی ملک اپنی سفارتی اور سیاسی بارگیننگ کے لیے فلسطین کا ایشو سیٹل نہیں ہونے دے رہے‘ یہ فلسطینیوں کو کیمپوں سے بھی باہر نہیں نکلنے دے رہے‘ ہم پاکستانی اگر واقعی فلسطین سے مخلص ہیں تو چلیے پھر ہم فلسطین کے لیے جہاد کرتے ہیں‘ نکلیں 20 کروڑ پاکستانی اپنے گھروں سے اور چل پڑیں اسرائیل کی طرف۔ لیکن مجھے یقین ہے ہم اگر نکلے بھی تو ہمیں سب سے پہلے وہ مصر‘ اردن‘ شام اور لبنان روکے گا جن کی زمینیں چھڑانے کے لیے ہم اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھیں گے اور پھر ہمیں سعودی عرب اور یو اے ای کی طرف سے واپسی کا حکم آ جائے گا۔