سرینگر (این این آئی)مقبوضہ کشمیرمیں ماہرین صحت نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ جموںوکشمیر مہلک کورونا وائر س کا مرکز بن سکتا ہے کیونکہ مقبوضہ علاقے کا صحت عامہ کا نظام اس وبا سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار نہیں ہے ۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق مقبوضہ علاقہ میںجہاں گزشتہ سال 5اگست کے بعد سے سخت فوجی پابندیاں عائد ہیں چار سو سے زائد کورونا وائرس کے مریض موجود ہیں جبکہ مریضوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
گزشتہ ہفتے کورونا وائرس کے ٹیسٹنگ کٹس وادی کشمیر نہیں پہنچ سکی تھیں جس کی وجہ سے کشمیر ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز نے مقبوضہ علاقے میں کورونا وائرس کے ٹیسٹوںکیلئے نمونے لینے چھوڑ دیے تھے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق پہلے ہی ٹیسٹوں کیلئے ان کے پاس تیرہ سو کے قریب سامپل موجود ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ ٹیسٹ کرانے آرہے ہیں۔ جموں وکشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے پروگرام کوآرڈینیٹر خرم پرویز نے کہاہے کہ گزشتہ 30 برس کے دوران بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں صحت عامہ کی بہتری کی بجائے تنازعے کے انتظام پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ کشمیر میں ڈاکٹروں کو صدمے سے دوچار افراد کی دیکھ بھال میں مہارت حاصل ہے اور کورونا وائرس ان کیلئے بالکل نیا ہے ۔ 2018کی ایک رپورٹ کے مطاببق مقبوضہ علاقے میں ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے کی بھی شدید قلت ہے ۔ سرینگر کے صورہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہاں صرف تین معالج کورونا وائر س کے مریضوں کے علاج معالجے پر معمور ہیں جو کہ نہ صرف پیشہ ورانہ اخلاقیات کے خلاف ہے بلکہ یہ مجموعی طبی غفلت کے مترادف ہے۔ گزشتہ سال 5 اگست کوبھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرتے ہوئے مقبوضہ علقے میں سخت فوجی محاصرہ نافذ کر دیا تھا جس کی وجہ سے طبی سازوسامان اور ادویات کی فراہمی معطل ہو گئی تھی ۔
سرینگر کے گورنمنٹ میڈیکل کالج کے ایک ڈاکٹر نے کہاہے کہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔اانہوں نے کہاکہ بھارت کی مختلف ریاستوں کے برعکس جموںوکشمیر کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں ہے ۔مقبوضہ علاقے میں دولاکھ N95 ماسک اور 10ہزارذاتی حفاظتی سازوسامان کی کمی ہے ۔صورہ ہسپتال ہیلتھ ورکرز آٹھ آٹھ گھنٹے کی طویل شفٹ میں لگاتار کام کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں صرف ایک ہی حفاظتی کٹ فراہم کی جاتی ہے ۔ ایک کروڑ تیس لاکھ کی آبادی کیلئے مقبوضہ علاقے میں صرف 215وینٹی لیٹرز موجود ہیں اور ڈاکٹروں کاکہنا ہے کہ ہمارے پاس دستیاب وینٹی لیٹرز انتہائی کم ہیں اورادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔
جموںوکشمیر میںلاک ڈاؤن کے دوران 4Gانٹرنیٹ سروس معطل ہے جس کے باعث ڈاکٹر مہلک وائر س سے نمٹنے کے بارے میں تازہ ترین معلومات کے حصول سے محروم ہیں ۔ سرینگر کے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں سرجری کے پروفیسر ڈاکٹر اقبال سلیم نے کہا ہے کہ پوری دنیا اس مہلک وائرس سے نمٹنے کیلئے کوششیں کر رہی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیرمیں ڈاکٹروں کو تیز رفتار انٹرنیٹ سروس تک رسائی بھی حاصل نہیں ہے جس کے باعث ہم ویڈیو کانفرسنگ کے ذریعے بیرون دنیا سے رابطہ اور ڈاکٹروں سے ان کی رائے معلوم نہیں کر سکتے ۔ صورہ ہسپتال کے ڈاکٹر آصف علی بٹ نے کہاکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھارتی حکومت سے مقبوضہ کشمیر میںانٹرنیٹ سروسز مکمل طورپر بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جو بھی اپنے تحفظات کے بارے میں بات کرتا ہے اسے نوکری سے برطرف کردیاجاتا ہے ۔