احمد آباد (نیوز ڈیسک) کورونا وائرس کی وباء سے متاثرہ گجرات میں حکومت غریبوں کو مفت اناج تقسیم کررہی ہے ایسے میں ہر راشن دکان پر کافی لمبی قطاریں دیکھنے مل رہی ہیں اور کافی مقامات پر راشن کم زیادہ ملنے پر لوگوں میں بحث ہوتی نظر آ رہی ہے۔گجرات کے دار الحکومت احمد آباد کے گومتی پور علاقے میں موجود کسائی کی چال میں لوگ راشن لینے کے لیے صبح سے قطار میں کھڑے تھے لیکن دکاندار نے جب مبینہ طور پر کم زیادہ راشن دینا شروع کیا تو مقامی لوگوں نے غصے کا اظہار کیا۔
اس دوران راشن حاصل کرنے کے دوران ایک راشن کارڈ ہولڈر اور دکاندار کے درمیان جھگڑے نے ایک بڑا تنازع کھڑا کر دیا۔پولیس موقع پر پہنچی اور حالات کو قابو میں کیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دکاندار نے پولیس کو کال کرکے بلایا اور پولس نے آتے ہی لوگوں پر ڈنڈے برسانا شروع کردیے۔ لوگ خود کو بچانے کی غرض سے بھاگے تو کسی نامعلوم شخص نے پتھرائو شروع کردیا۔ پتھر زنی کرنے والے شخص کو ڈھونڈنے کے لیے پولس اہل کاروں نے گومتی پور کے مقامی لوگوں کے گھروں کی تلاشی لی اور ایک گھر میں ایک خاتون پر ڈنڈے برسا کر اسے حراست میں لیا گیا۔مقامی لوگ اسے راشن کے جھگڑے پر شروع ہوا تنازع کہہ رہے ہیں لیکن پولیس نے اسے تبلیغی جماعت سے جوڑدیا۔پولیس نے الزام لگایا کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگ اس میں ملوث تھے اور انہی کے یہاں پر اکٹھا ہونے کی وجہ سے وائرس پھیلا۔تبلیغی جماعت نظام الدین مرکز میں گذشتہ دنوں ہونے والے ایک مذہبی پروگرام میں بڑی تعداد میں مختلف ریاستوں کے لوگوں نے حصہ لیا تھا اور اس پروگرام میں شریک افراد کی ریاستی حکومت نے ایک لسٹ جاری کی ہے۔ ریاستی حکومت نے تبلیغی جماعت پروگرام کے متعلق بتایا ہے کہ اس پروگرام میں ریاست کے 1500 افراد شریک ہوئے تھے، جس میں سے اب تک احمدآباد کے 25 افراد کو پکڑ کر قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔کورونا وائرس کے نام پر مرکز حضرت نظام الدین کو ہائی لائٹ کئے جانے اور اس معاملہ کو دوسرے انداز میں پیش کئے جانے پر دارالعلوم دیوبند نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی کا کہنا ہے کہ دنیا اس وقت مہلک وبا کا شکار ہے اس سے ہم انکار نہیں کرسکتے، لیکن تبلیغی جماعت کے مرکز میں جو معاملات سامنے آئے ہیں انہیں جس طریقہ سے نشر کیا جارہا ہے وہ نہایت ہی غیر مناسب ہے کیونکہ کورونا کے خلاف لڑائی مذہبی نہیں بلکہ انسانیت کی لڑائی ہے۔