واشنگٹن (این این آئی)امریکا نے حال ہی میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پر اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کا اعلان کیا تو مبصرین میں یہ بحث چھڑ گئی کہ رہبر اعلیٰ کو امریکی پابندیاں کیسے متاثر کریں گی جب کہ ان کے امریکا میں نہ تو اثاثے ہیں اور نہ وہ امریکا کا سفر کرتے ہیں۔بعض مبصرین اور دانشوروں نے کہاہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سوموار کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پر
جن پابندیوں کے نفاذ کا اعلان کیا انہیں لاگو کرنے سے ایران میں انسانی حقوق کا کیس متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ ان پابندیوں سے سپریم لیڈر کے وہ مقربین نشانہ بنیں گے جو ملک میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے مرتکب پائے گئے ہیں۔یاد رہے کہ امریکی صدر نے کہا تھا کہ ایرانی رجیم کے معاندانہ طرز عمل کا اصل ذمہ دار سپریم لیڈر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں ایران کی بڑھتی اشتعال انگیزی کا مناسب اور طاقت ور جواب ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق مبصرین نے کہاکہ امریکا کی طرف سے ایرانی سپریم لیڈر پر پابندیاںسیاسی اقدام ہے۔ ان کے مطابق کہ یہ پابندیاں براہ راست ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ کو متاثر نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کے امریکا میں نہ تو اثاثے ہیں اور نہ وہ امریکا آتے جاتے ہیں۔مگرانصاف برائے ایران’ تنظیم کی مندوب شادی صدر کا کہنا تھا کہ قانونی اعتبار سے دیکھا جائے تو خامنہ ای پر امریکی پابندیاں علامتی اقدام نہیں بلکہ ان پابندیوں سے خامنہ کے مقربین کی فوج ظفر موج پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ وہ ایرانی عناصر ہیں جو عوامی مظاہرے کچلنے اور ملکی پالیسی تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔سپریم لیڈر پر پابندیوں کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں میں 58 سالہ مذہبی لیڈر ابراہیمی رئیسی بھی شامل ہیں۔ رئیسی کو کچھ عرصہ پیشتر ایران میں سپریم جوڈیشل کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ ایران میں انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ریاستی عہدیداروں میں رئیسی کا نام سر فہرست ہے۔اایران میں سپریم لیڈر کا چنائو کرنے والے ادارے کے رکن 92 سالہ آیت اللہ جنتی صدارتی انتخابات میں سیکڑوں امیدواروں کو انتخابات سے روکنے، پارلیمنٹ کا رکن بننے سے باز رکھنے یا خبرگان کونسل میں ان کی آمد کا راستہ روکنے میں پیش پیش رہے ہیں۔آیت اللہ علی خامنہ ای پرعاید کی جانے والی امریکی پابندیوں کے
نتیجے میں متاثر ہونے والوں میں پاسداران انقلاب میں پولیس چیف جنرل حسین اشتری بھی شامل ہیں۔ حسین اشتری نے دسمبر 2017ء اور جنوری 2018ء کے دوران عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا تھا اور نہتے شہریوں پرمظالم ڈھانے سے عالمی سطح پر شہرت حاصل کی تھی۔