بیلینزونا (آن لائن )امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کوئی شرط عائد کیے بغیر اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائک پومپیو نے سوئٹزرلینڈ کے شہر بیلینزونا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران ایران سے مذاکرات کی بات کی تاہم انھوں نے کہا کہ امریکہ یہ دیکھنا چاہتا ہے
کہ ایران ایک معمول کے ملک کی طرح کا رویہ اختیار کر رہا ہے۔اس پریس کانفرنس میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے ہمراہ سوئٹزر لینڈ کے وزیرِ خارجہ انگازیو کاسِس بھی تھے۔ایران کے صدر حسن روحانی نے اتوار کی صبح کہا تھا کہ ایران امریکہ سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے بشرطیکہ امریکہ ایران کی عزت کرے، لیکن ایران مذاکرت کسی دباؤ میں آکر نہیں کرے گا۔جب مائیک پومپیو سے حسن روحانی کے بیان پر ردعمل پوچھا گیا تو بظاہر نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے مائک پومپیو نے کہا کہ ‘ہم بغیر کسی شرط کے بات چیت کے لیے تیار ہیں، ہم اکٹھا بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔’تاہم انہوں نے حزب اللہ اور شامی حکومت کی مدد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ ایران کو مشرقِ وْسطیٰ میں مجرمانہ سرگرمیاں دوبارہ سے شروع کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔پومپیو نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو کافی عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ایران سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔’ہم یقیناً بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں جب ایرانی یہ ثابت کردیں گے کہ وہ ایک عام قوم جیسا رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔’صدر ٹرمپ نے گزشتہ سوموار کہا تھا کہ وہ ایران سے بات چیت کے لیے مذاکرات کے میز پر بیٹھنے کیلیے تیار ہیں۔
لیکن ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے گزشتہ ہفتے بدھ کو کہا تھا کہ ایران امریکہ سے مذاکرات نہیں کرے گا باوجود اس کے کہ حسن روحانی نے بات چیت کا اشارہ دیا تھا بشرطیکہ ایران سے پابندیاں ہٹا لی جائیں۔سوئٹزرلینڈ کے وزیرِ خارجہ کاسِس نے اس موقعہ پر کہا تھا کہ ایرانی عوام ایران پر پابندیوں کی وجہ سے تکلیف میں ہیں اور سوئٹزر لینڈ ایک غیر جانبدار ملک ہوتے ہوئے چاہتا ہے کہ ایرانی عوام کو انسانی بنیادوں پر ضروری اشیا خاص کر ‘ادویات اور خوراک’ مہیا کرنے کی اجازت ہونی چاہئیے۔
انھوں نے کہا کہ ایران کو اناشیا کو خریدنے کے لیے ادائیگیاں کرنی ہوں گی اور یہ اْسی وقت ممکن ہے جب امریکہ بینکوں کو ایسی ادائگیاں کرنے کی اجازت دے گا۔کاسِس نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ امریکی جلد ہی اس مسئلے کو طے کرنے کے لیے’ممکنہ طور پر بہترین حل’ پیش کرے گا۔گزشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کو رکوانے کے لیے مشترکہ جامع معاہدہ عمل سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔
اس کے بعد امریکہ نے ایران پر خطہ میں عدم استحکام پھیلانے کا الزام عائد کیا اور ساتھ ہی امریکی بحریہ کے طیارہ بردار جہاز کو خلیج فارس کی جانب روانہ کردیا اور بی 52 بمبار طیاروں کو قطر کے ہوائی اڈّے پر تعینات کر دیا۔اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگراں ادارے آئی اے ای اے نے حال ہی میں کہا ہے کہ ایران سنہ 2015 میں ہونے والے جوہری پروگرام کو روکنے والی عالمی معاہدے کے بعد سے اپنے اوپرعائد ہونے والی پابندیوں پر سختی سے عمل کرتا چلا آرہا ہے۔
آئی اے ای اے کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ایران نے یہ دھمکی دی ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے عائد ہونے والی نئی پابندیوں کی وجہ سے اس معاہدے کی شرائط توڑنے جا رہا ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ نے آئی اے ای اے کی تازہ رپورٹ پر سوئٹزر لینڈ کی پریس کانفرسن میں کچھ کہنے سے گریز کیا ہے۔البتہ انھوں نے یہ کہا کہ واشنگٹن آئی اے ای اے کی رپورٹ کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور ساتھ ہی انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہمارے اپنے آزاد ذرائع ہیں جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔