اوسلو (این این آئی)ناروے کی انشورینس کمپنیوں نے کہاہے کہ گذشتہ اتوار کو متحدہ عرب امارات کی الفجیرہ بندرگاہ کے قریب دو سعودی، اماراتی اور ناروے کے تیل بردار بحری جہازوں پر حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کا ہاتھ ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق انشورینس کمپنیوں نے ایک بیان میں کہاکہ سعودی عرب، ناروے، متحدہ عرب امارات اور بعض دوسرے ممالک الفجیرہ بندرگاہ کے قریب تیل بردارجہازوں پرحملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
تحقیقات کے دوران اندازہ لگایا گیا کہ بین الاقوامی سمندری حدود میں موجود تیل بردار بحری جہازوں کو بارود سے لدی ریمورٹ کنٹرول کشتیوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جن پر 3 کلو سے 30 کلو گرام تک بارود رکھا گیا تھا۔الفجیرہ میں یہ حملہ امریکا اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے جلو میں سامنے آیا، رواں ماہ کے دوران امریکا نے ایرانی تیل کی عالمی منڈی میں برآمدات کو صفر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایرانی تیل پر مکمل پابندی عاید کردی تھی۔ناروے کی انشورنس گروپ کی رابطہ کمپنیوں کا کہنا تھاکہ الفجیرہ حملے کا فائدہ ایران کو پہنچا ہے۔ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے ایرانی پاسداران انقلاب کا ہاتھ ہو یا اس کا منصوبہ ایران نے تیار ہو گا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ایرانی پاسداران انقلاب اس سے قبل یمن میں حوثی باغیوں کو سمندر میں موجود جہازوں کو دھماکہ خیز کشتیوں کے ذریعے نشانہ بنانے کے لیے مواد فراہم کرتا رہا ہے۔ناروے کے متاثرہ جہاز سے ملنے والے شواہد یمن میں حوثیوں کی طرف سے جہازوں کو نشانہ بنائے جانے کے شواہد سے کافی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔ جس خودکش کشتی کو ناروے کے جہاز پرحملے کے لیے استعمال کیا گیا اسی طرح کی کشتیوں کے ٹکڑے یمن کے ساحلی علاقوں میں بھی جہازں پر حملوں کے بعد ملے تھی۔الفجیرہ دھماکوں میں ایران کے ملوث ہونے کا اس بھی شبہ ہوتا ہے کیونکہ امریکا کی طرف سے ایرانی تیل پر پابندی کے بعد ایران نے حریف ممالک کے تیل بردار جہازوں کو حملوں کا نشانہ بنانے کی دھکی دی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الفجیرہ میں چار تیل بردار بحری جہازوں پر حملوں کا مقصد ایران کی طرف سے امریکا کے لیے واضح پیغام بھی ہوسکتا ہے۔ ایران نے متعدد بار کہا تھا کہ وہ امریکی اقدام کے جواب میں آبنائے ہرمز بند کرکے تیل بردار جہازوں کو روک دے گا۔رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں تیل بردار جہازوں کو الفجیرہ میں ہونے والے حملوں سے زیادہ شدت کے حملوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ایرانی حکومت اور پاسداران انقلاب کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔