نئی دہلی(این این آئی)امریکی جریدے نے کہاہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کچھ عرصے سے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اپنی ایک نئی حکمت عملی پرعمل پیرا ہیں، گذشتہ پانچ سال کے دوران نریندر مودی کی علاقائی تعلقات کی حکمت عملی میں تبدیلی کا عنصر نمایاں رہا۔میڈیارپورٹس کے مطابق بھارتی حکومت نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سرمایہ کاری، فوجی شعبے میں معاہدے اور تزویراتی تعلقات کے فروغ کے کئی اقدامات کئے گئے۔
اس کے برعکس سرد جنگ کے عرصے میں نریندر مودی اور ان کی سرکار جہاں خلیجی عرب ممالک کے قریب ہوئی وہیں ایران سے دور ہوتی چلی گئی۔امریکی جریدے کے مطابق 2014ء کو نریندر مودی نے خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا اعلان کیا گیا۔ مبصرین نے ان ترجیحات کو مودی ڈاکٹرائن کا نام دیا۔ شروع میں ایسے لگ رہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک مودی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں مگر اندرونی کشمکش اور معاشی بحرانوں کا سامنا کرنے والے مودی نے سنہ 2014ء کے بعد مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کے8 دورے کیے۔ ماضی میں بھارتی حکمرانوں کی نسبت مودی کے عرب ممالک میں دورے زیادہ دیکھے گئے۔بھارت کو تیل کے صارف ممالک کی فہرست میں ایک اہم ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تیل کے استعمال میں بھارت کا مقابلہ چین کے ساتھ ہے اور سنہ 2024ء تک چین تیل استعمال کرنے اور اس کی پیداوار کے حوالے سے خطے کا سب سے بڑا ملک بن سکتا ہے۔ بھارت ایران اور سعودی عرب کے تیل پر انحصار کرتا رہا ہے مگر اب نئی دہلی تہران سے دور اور ریاض اور امارات کے قریب ہو رہا ہے۔روں سال فروری میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھارت کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ سعودی ولی عہد نے بھارت میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ اسی طرح بھارت کی سرکاری پٹرولیم کمپنی نے ابو ظبی میں 60 کروڑ ڈالر کے شیئرز خرید کیے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں خلیجی ممالک کی نوجوان قیادت کے ساتھ قربت پیدا کرنے کوشش جاری رکھی۔ اس کی مثال سعودی عرب اور امارات کے ولی عہد صاحبان کے بھارت کے دوروں سے لی جاسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی ولی عہد نے نئی دہلی کے دورے کے دوران نریندر مودی کو بڑا بھائی کہا تھا۔بھارت اور خلیجی ممالک میں حالیہ گرم جوشی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری سے ہوئی۔ عرب کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کا موقع فراہم کیا گیا۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود سنہ 2018ء میں دبئی کی بین الاقوامی بندرگہ کمپنی ممبئی بندرگاہ پر کنٹینروں کو ذخیرہ کرنے کے لیے 78 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی آئل کمپنی ارامکو اور ابو ظبی نیشنل پٹرولیم نے مہاراشٹر میں رانتا گیری میں تیل صاف کرنے کا ایک بڑا کارخانہ قائم کیا جس پر تیوں ملکوں نے مجموعی طورپر 44 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔مشرق وسطیٰ میں بھارت کی قربت نہ صرف عرب ممالک تک محدود رہی بلکہ مودی سرکار نے اسرائیل کے ساتھ بھی قربت پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔
اس وقت اسرائیلی ریاست بھارت کو فوجی مصنوعات اور سازو سامان کی فراہمی کی سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ سنہ 2012ء اور 2016ء کے دوران بھارت نے مجموعی طورپر بیرون ملک سے عسکری سامان کی سپلائی کا 40 فی صد اسرائیل سے منگوایا۔ بھارت نے اس عرصے کے دوران اسرائیل سے 54 بغیر پائلٹ ڈرون طیارے خرید کیے۔ میزائل سسٹم، چھ ارب ڈالر کی مالیت سے ‘باراک8’ میزائل اور دو ارب ڈالر مالیت کے درمیانے فاصلے تک زمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائل خرید کرنے کا معاہدہ کیا۔2018ء کے دوران بھارت نے کرپشن میں ملوث تین افراد بھارت کے حوالے کیے۔ ابو ظبی میں تعینات بھارتی سفیرنے اس اقدام کو دو طرفہ تعاون کے میدان میں اہم پیش رفت قرار دیا۔ اس کے علاوہ بھارت نے خلیجی ممالک کی ان سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ بھی تعلقات استوار کیے جو پاکستان کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے بھارت میں ‘ویٹنگ لسٹ’ میں تھیں۔