اسلام آباد(یواین پی)پاکستان میں پائی جانے والی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے 2 کو یوں تو اپنی اونچائی کے باعث خاص اہمیت حاصل ہے تاہم حال ہی میں اس کے بارے میں ایک اور اہم انکشاف سامنے آیا ہے۔ایک فرانسیسی ریاضی داں ڈینیئل پیروشیا نے اپنی کتاب دا کیس آف کے 2، میتھا میٹیکس اینڈ مانٹیرنگ میں کے 2 کی چوٹی کے بارے میں تفصیلات بیان کی ہیں۔
دنیا کی دوسری بلند ترین اس چوٹی کی لمبائی 8 ہزار 6 سو 11 میٹر ہے۔کتاب میں کہا گیا ہے کہ کے 2 کی چوٹی نہایت خوبصورت اور ایک مکمل ہرم(تکون عمارت)ہے۔سائنسدانوں کے مطابق تعمیرات میں تکون اہرام کو نہایت اہمیت حاصل ہے، یہ زاویہ اپنے اندر حیران کن خصوصیات رکھتا ہے۔اگر اہرام کو سطح زمین پر شمال اور جنوب کی سمت پر رکھا جائے تو اہرام کے اندر رکھی اشیا محفوظ رہتی ہیں کیونکہ شمال سے جنوب کی جانب مقناطیسی لہریں چلتی ہیں۔اگر قطب نما کو کسی بھی سطح پر رکھا جائے تو اس کی سوئی ہمیشہ شمال اور اس کا دوسرا حصہ جنوب کی جانب رہے گا لہذا اس سمت چلنے والی یہ مقناطیسی لہریں اپنا اثر دکھاتی ہیں اور اشیا کو محفوظ رکھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مصر کے عظیم اہرام میں رکھے گئے فراعین کے حنوط شدہ جسم ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اب تک صحیح سلامت موجود ہیں۔ناسا کے ایک سائنسدان کے مطابق اہرام توانائی کا ذریعہ ہیں، ماہرین کے مطابق اس طرح اہرام بنا کر اس میں رہا جائے اور مراقبہ کیا تو ذہن پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ تکون اشکال کی عمارات توانائی کو اپنی جانب کھینچتی ہیں تاہم تاحال سائنسدان اس معمے کو حل کرنے میں ناکام ہیں کہ توانائی اس مجموعے کی جانب کیسے اور کیوں کشش کرتی ہے۔