نئی دہلی(انٹرنیشنل ڈیسک)بھارت کی سپریم کورٹ نے انسانی اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے ان پانچ کارکنوں کے مقدمات میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا ہے جنھیں ماؤ نواز باغیوں سے مبینہ روابط کے الزام میں مہارشٹر کی پولیس نے گذشتہ ماہ گرفتار کیا تھا۔بھارتی ٹی وی کے مطابق عدالت کے تین رکنی بنچ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا کہ بظاہر ایسا نہیں لگتا۔
ان لوگوں کو صرف حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے اور ملزمان کو یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے کہ ان کے خلاف الزامات کی تفتیش کون کرے گا؟شہری حقوق کے کارکنوں کا الزام تھا کہ انھیں فرضی مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف الزامات کی تفتیش کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم یا ایس آئی ٹی تشکیل دی جانی چاہیے لیکن عدالت نے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔مہارشٹر کی پولیس کا موقف تھا کہ ریاست کے بھیما کورے گاؤں میں پیش آنے والے تشدد میں ان لوگوں کا ہاتھ تھا۔ یہ واقعہ جنوری میں اس وقت پیش آیا تھا جب دلت 200 سال قبل مراٹھا فوج پر اپنی ایک تاریخی فتح کا جشن منا رہے تھے۔ماؤ نواز باغی کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے مسلح تحریک چلا رہے ہیں اور وہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جمہوری نظام حکومت میں یقین نہیں رکھتے۔اپنے اختلافی فیصلے میں جسٹس چندرچور نے کہا کہ گرفتار شدہ کارکنوں کا یہ الزام بہت سنگین ہے کہ انھیں ان کی آواز خاموش کرنے کی کوشش میں گرفتار کیا گیا ہے اور جس طرح سے پولیس نے کارروائی کی ہے اس سے شبہات پیدا ہوتے ہیں اس لیے میری رائے ہے کہ ایک منصفانہ اور آزادانہ تفتیش ہونی چاہیے۔گرفتارشدہ کارکنوں میں انقلابی شاعر وراورا راؤ، قانون کی استاد سدھا بھاردواج اور انسانی حقوق کے کارکن گوتم نولکھا، ورنان گونزالویز اور ارون فریرا شامل ہیں۔عدالت نے ملزمان کی ان کے گھروں میں نظربندی چار ہفتوں کے لیے بڑھا دی ہے اور اس دوران وہ دیگر ذیلی عدالتوں سے ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔