واشنگٹن(این این آئی) امریکا میں مقیم پاکستان کے سفیر اعزاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ ظاہری طور پر پاکستان مستقبل میں افغان سیٹ اپ کا حصہ بننے کے لیے طالبان قیادت کی شمولیت پر زور دے رہا ہے کیونکہ افغانستان اور امریکہ افغانستان سے عسکریت پسندی کو ختم کرنے کی کوششیں بڑھا رہے ہیں۔امریکی ٹی وی کے مطابق واشنگٹن میں خواتین کے خارجہ پالیسی گروپ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس گلبدین حکمت یار کی مثال موجود ہے جنہیں نہ صرف سیاسی سیٹ اپ میں جگہ دی گئی بلکہ ان کا نام اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست سے بھی نکال دیا گیا، لہذا اس طرح کے انتظامات طالبان کے لیے بھی کیے جاسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ اب بہت کچھ درست ہورہا اور اس پیش کش پر طالبان کی جانب سے غور کیا جارہا لیکن ہم نے اس مذاکرات کی پیش کش کا کوئی عوامی جواب نہیں دیکھا جو حیران کن ہے،اعزاز احمد چوہدری کی جانب سے امریکی دفاعی سیکریٹری جیمس میٹس کے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بحالی کے لیے موجود مواقع پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ واشنگٹن میں کی جانے والی کوششوں سے واقف تھے اور اسلام آباد اور کابل مصالحت کے لیے ابتدائی اقدامات کو دے رہے۔انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کی روشنی میں اب امن کے امکانات پہلے سے زیادہ روشن ہیں اور ہر طرف سے مثبت اشارے مل رہے ہیں اور ہم ان کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں مذاکراتی عمل پر زور دیا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس معاملے میں فوجی حل عمل نہیں کرے گا۔پاکستانی سفیر نے کہا کہ اس جنگ میں بہت خون بہہ چکا اور ہر سال 10 ہزار کے قریب لوگ قتل کردیے جاتے، جسے اب روکنا ہوگا۔دریں اثنا افغانستان کے صدر اشرف غنی نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں
جنگ جیتنے کے تصور کو رد کرکے ایسے ختم کرنے کی بات کی جائے۔فرانسیسی خبررساں ادارے سے بات چیت میں افغان صدرنے کہاکہ ہم نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے سنجیدہ کوشش کیں اور ہمیں ماضی کو بلا کر بہتر تعلقات کی جانب گامزن ہو ناچا ہیے۔اشرف غنی نے کہا کہ ماضی کا قیدی بن کر وقت برباد نہ کیا جائے اور مستقبل کو محفوظ بنانے کی فکر کی جائے
جس کا مقصد افغانستان میں جنگ جتینا نہیں بلکہ اسے ختم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے افغانستان کو پاکستان کی مدد درکار ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی جغرافیائی حیثیت کے تناظر میں باہم رابطے کے ذریعے وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلق بحال ہو سکتا ہے، دونوں ممالک ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنگ کو ختم کرنا دراصل صحیح سمت کی طرف ایک قدم ہے