تہران (مانیٹرنگ ڈیسک) ایران سے موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق حکام نے سابق صدر محمود احمدی نژاد کو شیراز شہر سے گرفتار کر لیا ہے۔ ان پر جنوبی شہر بوشہر میں دیے گئے بیان کے بعد لوگوں کو شورش پھیلانے پر اکسانے کا الزام ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق مرشد اعلی علی خامنہ ای کی موافقت سے احمدی نژاد کی گرفتاری کے بعد، سابق صدر کو نظربند کیا جا سکتا ہے۔ایرانی عدلیہ کے سربراہ صادق آملی لاریجانی نے
گزشتہ ماہ سابق صدر محمود احمدی نژاد اور ان کے معاونین پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ملک میں “نیا فتنہ” بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ وہ ہی الزام ہے جو سخت گیر حلقوں نے سبز تحریک کے رہ نماں کروبی اور موسوی کے خلاف لگائے تھے۔ ان کے نتیجے میں دونوں شخصیات کو نظربند کر دیا گیا تھا۔اس سے قبل احمدی نژاد ایک وڈیو ٹیپ میں نمودار ہوئے تھے۔ ٹیپ میں انہوں نے ایرانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے ایران میں خامنہ ای کے بعد دوسرے با اثر ترین لاریجانی خاندان کا مذاق اڑایا تھا۔ نژاد کا کہنا تھا کہ “خدا کی قسم میرے پاس ایسے بیٹے نہیں جو مغرب کے لیے جاسوسی انجام دیں اور نہ میرے یاسے بھائی ہیں جو سامان کی اسمگلنگ میں سرگرم ہوں۔ اس کے علاوہ میں نے کوئی زمین بھی چوری نہیں کی جہاں میں مویشی پالوں۔ایران میں گیارہ روز سے حکم راں نظام کے خلاف عوام کے احتاج کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ احتجاج اس لحاظ سے ماضی سے مختلف ہے کہ مظاہرین کی جانب سے جرات مندانہ اور غیر مانوس قسم کی کارروائیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ اس دوران سکیورٹی مراکز کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا، خامنہ ای اور ان کے نظام کی اعلی شخصیات کی تصاویر کو نذرِ آتش کیا گیا اور بیرون ملک مقیم اپوزیشن شخصیات کی تصاویر بلند کی گئیں۔ اس سب کے علاوہ ایران کی باسیج فورس کے عناصر کی تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں جن میں وہ اپنے سرکاری شناختی کارڈز کو جلاتے ہوئے مظاہرین
کے ساتھ اپنی یک جہتی کا اعلان کر رہے ہیں۔اگرچہ ایرانی نظام کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ آہنی گرفت کے ذریعے نمٹا جا رہا ہے اور ساتھ ہی احتجاج کرنے والوں کو سخت ترین سزاں جو موت بھی ہو سکتی ہے ان کی دھمکیاں دی گئیں۔ تاہم یہ تمام حربے اور ہتھکنڈے عوامی مظاہروں کی شدت کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ احتجاج کا سلسلہ نئے علاقوں تک پھیل گیا۔ان مظاہروں کا دائرہ کار وسیع ہو جانے پر ایران کے کئی سیاسی ، عسکری اور مذہبی رہ نما مظاہرین کو ایران کا دشمن اور بیرونی ایجنٹ قرار دینے پر مجبور ہو گئے
جو ایرانی مفادت کو نقصان پہنچانے والے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔دوسری جانب امریکا نے جمعے کے روز سلامتی کونسل کے اجلاس میں اعلان کیا تھا کہ وہ ایران میں مظاہروں کی کھلی حمایت کرتا ہے۔ کونسل کے دیر رکن ممالک نے تہران پر زور دیا کہ وہ پرامن احتجاج اور آزادیِ اظہار کے حوالے سے عوام کے حقوق کا احترام کرے اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو روک دے۔ایران نے واشنگٹن کی جانب سے توبیخی موقف کو “ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے سلامتی کونسل کو استعمال کرنے اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا۔