نئی دہلی(این این آئی)بھارت کی عدالت عظمی نے لو جہاد کے مبینہ معاملے میں کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر سماعت کرتے ہوئے عدالت کے اختیار پر سوال اٹھایاہے کہ کیا وہ ایک مسلمان لڑکے کی ایک ہندو لڑکی کے ساتھ شادی کو کالعدم قرار دے سکتی ہے؟سپریم کورٹ کیرالہ ہائی کورٹ کی جانب سے اس معاملے میں نیشنل انویسٹیگیٹنگ ایجنسی (این آئی اے) کے ذریعے جانچ
کرانے کے فیصلے پر بھی بظاہر متفق نظر نہیں آئی۔عدالت عظمیٰ کی تین رکنی بینچ نے سماعت کے دوران کہاکہ کوئی پیٹرن ہو یا نہیں ہو، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہائی کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے شادی کو کالعدم قرار دینے کا حق ہے یا نہیں۔بھارتی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر اور ڈی وائی چندرچوڑ کی بینچ نے لڑکی کے والد سے کہاکہ وہ ایک 24 سالہ لڑکی پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتے۔خیال رہے کہ ایک ہندو لڑکی اکھیلااسوکن نے مبینہ طور پر سنہ 2013 میں اسلام قبول کر لیا تھا اور انھوں نے دسمبر سنہ 2016 میں شفین جہان سے شادی کر لی تھی۔ اکھیلا کا نام اب ہادیہ ہے۔شفین جہان نے عدالت میں شادی کو کالعدم قرار دیے جانے اور این آئی اے سے جانچ کرائے جانے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی۔اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے لڑکی کے والد سے کہا کہ وہ 24 سال کی ہے۔ آپ اسے کیسے کنٹرول سکتے ہیں۔ طرفین کی رضامندی سے ہم (لڑکی کے لیے) نگہبان مقرر کر سکتے ہیں۔ والد یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہمیشہ 24 سال کی اپنی بیٹی پر کنٹرول رکھیں گے۔ان کو جب کہا گیا کہ وہ چیخیں نہیں تو انھوں نے کہا
کہ ‘میں چیخوں گا۔’ انھوں نے مزید کہاکہ نہ تو ریاست نے اپیل کی تھی نہ والد نے اپیل کی تھی نہ این آئی اے نے اپیل کی تھی پھر کس طرح معزز جج نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر جاتے ہوئے جانچ کا حکم دے دیا تھا۔انھوں نے عدالت سے پوچھاکہ اس جانچ نے اس کثیر مذہبی ملک کی بنیاد
کو ہلا دیا ہے۔ بی جے پی میں اقلیتی برادری سے آنے والے دو بڑے اہلکار نے ہندو عورتوں سے شادی کر رکھی ہے کیا حضور والا اس معاملے میں بھی این آئی اے کی جانچ کا حکم دیں گے؟ اس حکم نے دنیا بھر میں خوفناک پیغام بھیجا ہے۔