ڈھاکہ (آئی این پی)بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر میانمار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار بنگلہ دیش آنے والے، اوریہاں پہلے سے موجود روہنگیا مسلمانوں کو واپس لے، روہنگیا مسلمانوں کی بحالی میں تعاون فراہم کریں گے ،ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ میانمار کے حکمرانوں نے ایک مخصوص کمیونٹی پر اتنے مظالم کیوں ڈھائے جبکہ ان کا ملک مختلف کمیونٹی
کے افراد پر مشتمل ہے، بنگلہ دیش طویل عرصے سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کررہا ہے لیکن پھر بھی روہنگیا افراد کو بنگلہ دیش روانہ کیا جارہا ہے، خواتین کو ریپ اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، بچوں کو قتل کیا جارہا ہے، رکھائن علاقے میں گھروں کو آگ لگائی جارہی ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ نے منگل کے روز میانمارکی سرحد کے قریب روہنگیا پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کا دورہ کیا اور امدادی سامان بھی تقسیم کیا۔ اس موقع پر انکا کہنا تھاکہ میانمار بنگلہ دیش آنے والے، اور بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا مسلمانوں کو واپس لے،ہم میانمار کو روہنگیا مسلمانوں کی بحالی میں تعاون فراہم کریں گے ۔حسینہ واجد نے کہاکہ انھیں اسے روکنا چاہیے، ساتھ ہی ساتھ میانمار کی حکومت کو تحمل سے اس صورتحال سے نمٹنا چاہیے، انھیں فوج یا اپنی ایجنسیوں کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ عام لوگوں پر حملہ کریں۔ بچوں، خواتین اور معصوم لوگوں کا کیا قصور ہے۔ وہ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ہمیں انھیں پناہ دینی ہے تاکہ وہ خوراک اور ادویات حاصل کر سکیں، جب تک وہ انھیں واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ انسان ہیں ہم انھیں واپس نہیں دھکیل سکتے۔ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ ہم انسان ہیں۔بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم نے کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی ہے کہ میانمار کی حکومت کو اپنے تمام شہریوں کو واپس اپنے ملک لے
جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیمیں میانمار پر ضابطے کے مطابق کارروائی کرنے اور انھیں واپس لینے کے لیے دبا ئوڈال رہی ہیں۔میرا ذاتی پیغام بہت واضح ہے کہ انھیں انسانی بنیادوں پر صورت حال کو سمجھنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ، بچے اور خواتین مشکل میں ہیں۔ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ان لوگوں کا میانمار سے تعلق ہے اور یہ وہاں مقیم رہے ہیں۔ یہ کیسے اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ وہ ان کے شہری
نہیں ہیں۔روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے حالیہ تشدد پر میانمار کی انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیراعظم نے کہا کہ ‘ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ میانمار کے حکمرانوں نے ایک مخصوص کمیونٹی پر اتنے مظالم کیوں ڈھائے جبکہ ان کا ملک مختلف کمیونٹی کے افراد پر مشتمل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش طویل عرصے سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کررہا ہے۔شیخ حسینہ نے کہا ‘لیکن پھر بھی روہنگیا افراد کو بنگلہ دیش روانہ کیا جارہا ہے، خواتین کو ریپ اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، بچوں کو قتل کیا جارہا ہے، رکھائن علاقے میں گھروں کو آگ لگائی جارہی ہے۔دریں اثناء برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ حسینہ واجد کا کہناتھا کہ میانمار کی حکومت کو اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو روہنگیا مسلمانوں پر حملے کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔انھوں نے برمی رہنما آنگ سان سو چی کو ایک ذاتی پیغام میں لکھا ہے کہ مینانمار کو پناہ گزینوں کو واپس لینا چاہیے کیونکہ وہ ان کے ‘اپنے لوگ’ ہیں۔انھوں نے حالیہ تشدد کی لہر میں روہنگیا جنگجوں کے کردار کی بھی مذمت کی۔حالیہ ہفتوں میں تین لاکھ 70 ہزار سے زیادہ روہنگیا پناہ گزین سرحد عبور کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔