اسلام آباد(آن لائن)وزیر اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے بتایا کہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سعودی عرب میں تاحال کسی فوج کی قیادت نہیں کر رہے، اس وقت فوج بنی ہے اور نہ ہی ٹی او آرز کو حتمی شکل دی گئی ہے۔سینیٹ کے اراکین کو آگاہ کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے بتایا کہ ٹی او آرز کو حتمی شکل دینے کے لیے رکن ممالک اور وزیردفاع کے درمیان ملاقات ہونی تھی،
جو تاحال نہیں ہو سکی۔مشیر امور خارجہ نے مزید کہا کہ اسلامی فوجی اتحاد کے ٹی او آرز سے متعلق پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے گا۔سرتاج عزیز کے بیان پر چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے تحفظات کا اظہار کیا۔رضا ربانی نے کہا کہ ٹی او آرز نہیں بنے، تو راحیل شریف کو سعودی عرب کیسے بھیج دیا گیا، اگر راحیل شریف کسی فوج کو قیادت نہیں کر رہے تو پھر سعودی عرب میں کیا کر رہے ہیں؟چیئرمین سینیٹ نے مزید کہا کہ جوہری طاقت کے حامل ملک کے سابق فوجی سربراہ کو آپ نے حساس جگہ پر بھیج دیا اور آپ کو ٹی او آرز کا پتہ بھی نہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کہ اگر ٹی او آرز پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی کے مفاد میں نہ ہوئے، تو پھر آپ کیا کریں گے، آپ تو پہلے ہی راحیل شریف کو سعودی عرب بھیج چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نہ فوج بنی ہے، نہ ہی ٹی او آرز طے ہوئے ہیں جبکہ پہلے ہی سپہ سالار کو بھیج دیا گیا ہے۔چیئرمین سینیٹ نے بتایا کہ امریکا سے قانون سازوں سمیت جو بھی پاکستان آتے ہیں وہ ہم سے نہیں ملتے، وہ صرف انتظامیہ اور فوج سے ملتے ہیں۔سینیٹ ارکان نے بھی سرتاج عزیز کے بیان پر تحفظات کا اظہار کیا۔سینیٹ میں اسلامی فوجی اتحاد سے متعلق تحریک پر بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ سے 10 ماہ قبل فوجی کے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ذریعے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا اعلان کیا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ راحیل شریف کا 10 ماہ قبل توسیع نہ لینے کے اعلان کا مقصد کیا تھا، جبکہ کسی نے انہیں مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش بھی نہیں کی تھی، تو انہوں نے یہ اعلان کیوں کیا؟فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ کیا راحیل شریف سعودی عرب کو پیغام دینا چاہتا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دستیاب ہیں؟اس سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ،
معاملے کی تحقیقات کی جائیں۔علاوہ ازیں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ فرقہ وارانہ فساد نہیں ہونے دیں گے۔الیاس بلور نے مزید کہا کہ کسی ملک کے خلاف کو ٹی او آرز قبول نہیں ہوں گے، فرقہ وارانہ فساد ہوا تو ملک تباہ ہوگا۔واضح رہے کہ دسمبر 2015 میں سعودی عرب کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا گیا تھا،
جس کا بنیادی مقصد مسلم ممالک کے درمیان سلامتی کے حوالے سے تعاون سمیت فوجیوں کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کا بیانیہ وضع کرنا تھا۔ابتداء میں اس اتحاد میں 34 ممالک شامل تھے بعد ازاں مزید ممالک کی شمولت سے اس کی تعداد 41 ہو گئی تاہم ایران سمیت کئی مسلم ممالک اس کا حصہ نہیں ہیں۔پاکستان ابتداء میں اس اتحاد میں شمولیت سے متعلق مخمصے کا شکار رہا،
تاہم ابہام دور ہونے کے بعد پاکستان نے اس اتحاد میں اپنی شمولیت کی تصدیق کردی، لیکن کہا گیا کہ اتحاد میں اس کے کردار کا تعین سعودی حکومت کی طرف سے تفصیلات ملنے کے بعد کیا جائے گا۔نومبر 2016 میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے مسلسل یہ بات زیر بحث رہی کہ وہ اسلامی اتحادی افواج کے سربراہ کا عہدہ سنبھالیں گے،
لیکن ابتداء میں سرکاری سطح پر کسی نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔بعدازاں گزشتہ ماہ یعنی مارچ کے آخر میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے جنرل (ر) راحیل شریف کو اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا کمانڈر بنائے جانے کی تصدیق کی تھی۔واضح رہے کہ نومبر 2013 میں پاک فوج کی کمان سنبھالنے والے راحیل شریف کی مدت ملازمت گذشتہ برس نومبر میں ختم ہوئی۔
جنرل (ر) راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کافی قیاس آرائیاں کی گئیں تاہم آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا تھا کہ آرمی چیف مقررہ تاریخ پر ریٹائر ہوجائیں گے۔یاد رہے کہ رواں برس اپریل میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد کی قیادت کے لیے این او سی جاری کیا گیا، جس کے بعد وہ سعودیہ عرب روانہ ہوئے۔