تہران(این این آئی)انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے ایرانی پولیس اور انٹیلی جنس حکام کے ہاتھوں اہل سنت مسلک کے پیروکار 80 شہریوں کی گرفتاری اور انہیں دوران حراست اذیتیں دینے کی شدید مذمت کی ہے۔ ان تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایرانی رجیم گرفتار کیے گئے مشتبہ سنی شہریوں کو اجتماعی پھانسی دے سکتی ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ ہفتے تہران میں آیت اللہ خمینی
کے مزار اور پارلیمنٹ کے باہر ہونے والے دھماکوں میں ملوث ہونے کے شبے میں 80 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ تمام افراد اہل سنت مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی جس کے بعد ایرانی پولیس نے ملک بھر میں اہل سنت مسلک کے پیروکاروں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے گذشتہ روز اپنے بیان میں بتایا کہ سات جون کو ایران میں ہونے والے دھماکوں کے بعد پولیس نے ملک بھر میں وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ بیان میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ حراست میں لیے گئے شہریوں کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔انسانی حقوق کی تنظیم نے حراست میں لیے گئے شہریوں پر اقبال جرم کے لیے تشدد کے ہولناک حربوں کے استعمال سے متعلق بھی خبردار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے شبے میں حراست میں لیے گئے تمام افراد کے خلاف کھلی عدالتوں میں شفاف طریقے سے مقدمات چلائے جائیں۔ دہشت گرد تنظیموں اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کے بعد ہی ملزمان کو سزا دی جائے۔یاد رہے کہ ایران میں اہل سنت مسلک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بے بنیاد الزامات کے تحت اجتماعی پھانسی دیے جانے کے واقعات اکثر پیش آتے ہیں۔ گذشہ برس اگست میں 25 سنی کارکنوں کو محض چند منٹ کے
نمائشی ٹرائل کے بعد انقلاب عدالتوں سے سزائے موت دلوائی گئی تھی، جنہیں بعد ازاں اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔