کابل(این این آئی)افغانستان حکومت کے خلاف مظاہرین نے صدارتی محل کے پاس ہی مستقل ڈیرے ڈال دیئے ، کابل میں بھی دھرنے جیسی صورتحال،افغانستان میں حکام نے سلامتی کے شدید خطرے کے پیش نظر لوگوں کو کابل میں جلوس اور مظاہروں سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے جب کہ رواں ہفتے ہونے والے بم دھماکے کے خلاف لوگوں کا احتجاج دوسرے روز بھی جاری رہا۔گزشتہ روز بھی صدارتی محل کے قریب
لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن کی اکثریت نے رات بھی یہیں گزاری۔افغان وزارت داخلہ نے نائب وزیر مراد علی مراد نے مظاہرین سے مطالبہ کیا کہ وہ سلامتی کے شدید خطرے کے باعث یہاں سے منتشر ہو جائیں۔ ان کے بقول صدر اشرف غنی نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا ہے کہ جمعہ کو پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات کی جائیں۔ادھر کابل میں فوجی حکام نے بھی دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر مظاہرین سے منتشر ہونے کا کہا ہے۔کابل بم دھماکے کی جگہ کے قریب ہی احتجاج کرنے والوں نے عارضی خیمے بھی نصب کر لیے ۔حکام نے لوگوں سے کہا کہ وہ مظاہروں سے اجتناب کریں اور ان بقول سکیورٹی فورسز کسی بھی ممکنہ دہشت گرد حملے کو رونما ہونے سے روکنے اور لوگوں کی سلامتی کے لیے دن رات کوشاں ہیں اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ ریلیاں اور جلوس نکالنے سے گریز کریں۔ایک امریکی خبررساں ادارے سے گفتگوکرتے ہوئے مظاہرے میں شریک ایک خاتون نیلوفر نیلگوں کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو افغان حکومت پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے کیوں کہ وہ حکومت کرنے کی اہل نہیں۔افغانستان سے بیشتر غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلا کے تین سال بعد بھی ملک میں امن و امان کی صورتِ حال خاصی مخدوش ہے اور افغان حکومت کو ملک میں اپنی رِٹ قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ افغانستان کا لگ بھگ 40 فی صد رقبہ یا تو طالبان جنگجووں کے قبضے میں ہے یا اس پر قبضے کے لیے طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تگ و دو جاری ہے۔