بیجنگ(آ ئی این پی) ایک چینی ماہر تعلیم کے مطابق چین ۔پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) جو کہ ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ منصوبے (بی آر آئی ) کا پائلٹ اور اہم پراجیکٹ ہے باہمی سود مند تعاون اور رابطے کو فروغ دے کر پورے ایشیاء میں ترقی کو فروغ دے گا ۔چائنا فارن افیئرز یونیورسٹی میں بین الاقوامی اکنامکس سکول کی ڈین پروفیسر کائی ہوا زو نے کہا کہ سی پیک اور بی آر آئی بین الاقوامی تعاون اور مشمولہ عالمگیریت کے نئے ماڈل ہیں ۔خاتون ماہر تعلیم نے کہا کہ
یہ منصوبہ مشترکہ مفادات ، ذمہ داری اور تقدیر والی برادری جو باہمی سیاسی اعتماد ، اقتصادی ادغام اور ثقافتی مشمولیت پر مشتمل ہو کی تعمیر میں مدد دے سکتا ہے۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار گذشتہ ماہ بیجنگ میں منصوبے اور ایشیاء کیلئے اس کے اثرات کے بارے میں بنگلہ دیش سمیت متعدد جنوب ایشیائی ممالک کے صحافیوں کے گروپ سے باتیں کرتے ہوئے کیا ۔مئی میں چینی حکومت ملک کے صدر شی جن پھنگ کے تاریخی منصوبے بی آر آئی کے بارے میں سربراہی اجلاس مرتب کرے گی ، سربراہی اجلاس کے دوران چین بنگلہ دیش کے ساتھ بین الحکومتی فریم ورک اور مالیاتی معاہدے پر دستخط کرے گا ع، بی آر آئی منصوبے میں چین کی اپنی صنعتی گنجائش برآمد کرنے کی کوشش کرنا اور بحیرہ ہند کے ذریعے بحری شاہراہ ریشم اور یوریشیا میں قدیم شاہراہ ریشم کے راستے پر اثرانداز ہونا شامل ہے، بالآخر اس سکیم میں 60سے زائد ممالک شامل ہو سکتے ہیں ، یہ دنیا کی آبادی کے قریباً 65فیصد عالمی قومی پیداوار کے قریباً ایک تہائی اور دنیا میں نقل و حرکت کرنیوالی تمام اشیاء اور سروسز کے ایک چوتھائی پر محیط ہے ۔ خاتون پروفیسر نے کہا کہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک قرضے دینے کے سلسلے میں اب بھی سختی سے کام لے رہے ہیں اور ان کے وسائل ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کے مقابلے میں ناکافی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک اور اے ڈی بی
ایشیاء کے بنیادی ڈھانچے کیلئے قریباً 20بلین ڈالر سالانہ مالیت کی فنانسنگ سروسز کی پیشکش کرسکتے ہیں ، یہ کافی سے کہیں زیادہ ہے ۔ جو نے کہا کہ ایشیائی ممالک کو 2016-2030ء کے دوران بنیادی ڈھانچے کی ترقی کیلئے 26ٹریلین ڈالر درکار ہیں ۔خاتون پروفیسر کے مطابق نجی شعبہ اس وقت علاقے کی بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کا قریباً 92فیصد پورا کررہا ہے جو کہ مشرق ایشیاء میں نوے فیصد سے زائد اور جنوبی
ایشیاء میں 62فیصد سے کم ہے، روایتی عالمگیریت کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے خاتون پروفیسرنے کہا کہ عالمی طورپر یہ سمندری ممالک ،خشکی میں گھرے ممالک ، ترقیافتہ اور کم ترقیافتہ میں بٹے ہوئے ہیں ، ملکی طورپر دیہی و شہری اور امیر و غریب میں تقسیم ہیں ۔انہوں نے ان تقسیم ہائے کا الزام بنیادی ڈھانچے کی رکاوٹوں پر عائد کیا۔