سینئیر کالم نگار فضل حسین اعوان اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔ ہمارے کلچر میں عورت تو کیا مرد کی دوسری شادی کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ سعودی عرب کے کچھ علاقوں کا کلچر اسکے برعکس ہے۔ سعودی عرب کے صوبے الاحساء کے دیہات اس لحاظ سے انتہائی منفرد ہیں یہاں خواتین اپنے خاوندوں کیلئے خود نئی دلہنیں تلاش کرتی ہیں۔
یہ سلسلہ 1981 ء میں اس وقت شروع ہوا جبایک خاتون نے اپنے خاوند کو دوسری شادی کی ترغیب دی۔۔ یہ خاتون اپنے خاوند کی نئی دلہن کی تلاش میں خود نکلی اور بالآخر اس کیلئے ایک نو عمر دلہن کا انتظام کر ہی لیا۔ ابتداء میں تو لوگوں نے اس خاتون کو پاگل قرار دیا لیکن اس نے یہ دعویٰ کر کے سب کو حیران کر دیا کہ اس پر آسیب کا سایہ تھا جب اس نے اپنے خاوند کی دوسری شادی کروائی تو آسیب جاتا رہا۔ اس واقعہ کے بعد ایک اور اہم واقعہ پیش آیا۔ معصومہ محمد نامی خاتون کی شادی کو 16 سال گزرنے کے باوجود اسکے ہاں اولاد نہیں تھی۔ اس نے بھی اپنے خاوند کی دوسری شادی کروا دی اور اسکے کچھ عرصہ بعد وہ خود بھی اولاد کی نعمت سے مالا مال ہو گئی۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح متعدد اور واقعات بھی پیش آئے جسکے بعد خواتین نے اپنے خاوندوں کو خود ہی متعدد شادیوں کیلئے قائل کرنا شروع کر دیا۔ یوں الاحساء کے دیہات میں یہ روایت اور مضبوط ہو گئی۔ اس کلچر سے گھریلو زندگی اطمینان بخش ہو گئی۔