کابل /واشنگٹن (آئی این پی)افغانستان کی پہلی خاتون پائلٹ کی طرف سے امریکہ میں پناہ کی درخواست کی خبروں پر ملک میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی جبکہ افغان وزارت دفاع نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ کیپٹن نیلوفر کی درخواست کو امریکی اداروں کی طرف سے رد رک دیا جائے گا، کیوں کہ اامریکہ نے افغان سیکورٹی کی تشکیل پر اربوں خرچ کیے ہیں۔ ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق افغانستان کی پہلی خاتون پائلٹ کی طرف سے امریکہ میں پناہ کی درخواست کی خبروں پر ملک میں ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔امریکی اخبار ’’وال اسٹریٹ جنرل ‘‘کے مطابق نیلوفر رحمانی نے کہا تھا کہ اگر وہ واپس اپنے ملک گئیں تو ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ افغان خاتون پائلٹ تربیت کے لیے امریکہ میں ہیں۔ افغان وزارت دفاع نے اتوار کو تصدیق کہ 25 سالہ پائلٹ کیپٹن نیلوفر رحمانی نے پناہ کی درخواست دی ہے۔اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق نیلوفر رحمانی نے کہا تھا کہ اگر وہ واپس اپنے ملک گئیں تو ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔کیپٹن نیلوفر کو 2015 میں امریکہ کے محکمہ خارجہ کے وویمن آف کریج ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے اور انھیں اپنے ملک میں خواتین کی حالت زار کو بہتر بنانے کی کوششوں کے سلسلے میں ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔افغان وزارت دفاع کے ترجمان کے مطابق افغانستان کی حکومت کو توقع ہے کہ کیپٹن نیلوفر کی درخواست کو امریکی اداروں کی طرف سے رد رک دیا جائے گا، کیوں کہ ان کے بقول امریکہ نے افغان سیکورٹی کی تشکیل پر اربوں خرچ کیے۔ترجمان نے کہا کہ جب ایک افسر عدم تحفظ کی شکایت کرے اور سلامتی کے خطرات سے خوفزدہ ہو تو اور اس صورت میں عام شہری کیا کرے۔کپیٹن فیلوفر رحمانی نے 2012 میں فلائیٹ اسکول سے گریجویشن کی جس کے بعد انھیں سی 280 فوجی مال بردار طیاروں کو اڑانے کا اہل قرار دیا گیا۔وہ امریکہ میں تربیتی کورس کے لیے گئیں اور انھیں ہفتے کو اپنے وطن واپس پہنچنا تھا۔افغانستان جہاں خواتین کو بہت سی پابندیوں کا سامنا ہے، اس معاشرے میں نیلوفر رحمانی کا خاتون پائلٹ بننا ایک غیر معمولی بات ہے۔تاہم اس کامیابی کی انھیں قیمت بھی ادا کرنی پڑی، وویمن آف کریج ایوارڈ کے موقع پر نیلوفر نے کہا تھا کہ انھیں اور ان کے خاندان کو نا صرف طالبان بلکہ اپنے رشتہ داروں کی طرف سے بھی براہ راست دھمکیاں دی گئیں، جس کی وجہ سے انھیں اپنا گھر بھی کئی مرتبہ بدلنا پڑا۔دوسری طرف افغانستان کے سرگرم سوشل میڈیا پر بھی افغان خاتون پائلٹ کو بہت کم ہمدردی ملی اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر نیلوفر کو تنقید سامنا رہا جس میں بعض صارفین کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لیے مہنگے تربیتی کورسز پر حکومت کا پیسہ خرچ کر رہی ہیں۔امریکہ میں تربیت کے لیے جانے والے درجنوں افغان فوجی گزشتہ دو سالوں میں وہیں آگے پیچھے ہو گئے اور ان میں سے کم از کم ایک کو اس وقت تحویل میں لیا گیا جب وہ کینیڈا میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔