جکارتہ(این این آئی)انڈونیشیا میں جکارتہ کے گورنر کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ۔ گورنر کا تعلق چینی نڑاد مسیحی اقلیت سے ہے۔جبکہ انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ کی ایک عدالت میں گورنر بیسوکی تجہاجا پورنما عرف آہوک نے مسلمانوں کی جانب سے عائد توہین مذہب کے الزامات سے کلی طور پر انکار کر دیا ہے۔ اس انکار کے وقت، وہ اتنے جذباتی ہوئے کہ اْن کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور آواز رْندھ گئی۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق عدالت میں استغاثہ کی جانب سے توہین مذہب کے مبینہ الزام کی پیش کردہ تفصیلات کے جواب میں چینی نڑاد مسیحی سیاستدان پورنما نے کہاکہ میں اس الزام کو سمجھ رہا ہوں لیکن ایسا کیا غلط میں نے کہا ہے جو توہین مذہب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو کچھ انہوں نے تھاؤزند آئلینڈز میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا وہ واضح طور پر قران کی کسی آیت کی تشریح نہیں تھی اور اِس سے علماء یا قران کی توہین بھی مقصود نہیں تھی۔
اسی دوران سابق صدر سوسیلو بامبانگ یدھویونو کے بیٹے نے پولیس سیآہوک کے بیان کے حوالے سے اپنا تفتیشی عمل شروع کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ سابق صدر کے صاحبزادے بھی جکارتہ کی گورنری کے الیکشن کے ایک امیدوار ہیں۔ گورنرشپ کا الیکشن اگلے برس پندرہ فروری کو ہو گا۔
انڈونیشی قانون کے مطابق توہین مذہب کا ارتکاب کرنیکا جرم ثابت ہونے پر کم از کم پانچ برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ دریں اثنا موجودہ سیاسی افراتفری کے نتیجے میں جکارتہ حکومت نے کئی ایسی ویب سائٹس پر پابندی عائد کر دی ہے جو مذہبی بیچینی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی انتشار پھیلانے کی مرتکب ہو رہی تھیں۔
توہینِ مذہب پر انڈونیشی گورنر کے خلاف عدالتی کارروائی
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں