نئی دلی ،لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت میں پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ ہفتے ایک کبوتر گرفتار کیا جو پاکستان سے پیغام لے جا رہا تھا۔ بھارتی مصنف شوون چودھری نے اسے ایک طنز نگار کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے لکھا میں کہوں گا کبوتر کے معاملے میں ساری غلطی موبائل سروس فراہم کرنے والوں کی ہے۔ وہ زیادہ خدمات فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ دہلی میں ہمارے گھر تو صورت حال یہ ہے ہم صرف اسی وقت بات کرسکتے ہیں جب ہم کسی خاص کمرے کی کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر فون پکڑے کھڑے رہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے آخر کیوں چند پاکستانی محبانِ وطن نے بھارت کے وزیراعظم مودی کے نام پیغام کبوتر کے گلے میں ڈال کر سرحد پار روانہ کر دیا۔ اس کی وجہ ضرور یہ رہی ہوگی ان کا فون نہیں کام کر رہا۔ انھوں نے ’’دہشت گرد کبوتروں‘‘ کو تعینات کر دیا۔ یہ بات قابل غور ہے وہ ایک نہیں بلکہ دو کبوتر تھے جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ہم پر پے در پے حملہ کر رہے ہیں اور وہ دور تک اندر چلے آئے۔ دونوں حملے پنجاب کے دارالحکومت امرتسر سے بہت قریب تھے جہاں مرد مرد ہے اور گھی مکھن بہتے ہیں۔ درانداز کبوتر کو پنجاب پولیس نے روکا اور پولیس ڈائری میں اس کا اندراج ‘مشتبہ جاسوس کے طور پر کیا گیا۔ اور اسے فی الحال ایک ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں پولیس کی سخت نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ پٹھان کوٹ کے پولیس افسر راکیش کمار نے ایک امریکی خبررساں ادارے کوبتایاکہ پولیس اس معاملے کی سنجیدگی سے جانچ کر رہی ہے۔ ہم نے یہاں چند جاسوس پکڑ رکھے ہیں۔ یہ حساس علاقہ ہے کیونکہ یہ جموں سے قریب ہے اور جہاں دراندازی بہت عام ہے۔ قسمت کی خوبی دیکھیے کہ بھارت میں پولیس کو جنگلی جانوروں کا بھی بہت تجربہ ہے کیونکہ اترپردیش میں ایک معروف سیاست داں کی بھینس جب اغوا ہو گئی تو 100 سے زیادہ پولیس اہلکاروں اور دو اعلیٰ افسران کو تفتیش پر تعینات کیا گیا حالانکہ ان کی شناخت کے بارے میں بعض سوالات اٹھے تھے تاہم انھوں نے ایک ہفتے میں بھینس بازیاب کرا لی۔ اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھینس بدل گئی ہو گی لیکن کیس کو بند کر دیا گیا۔ اس طرح ہم امید کر سکتے ہیں وہ کامیابی کے ساتھ ’’جہادی کبوتروں‘‘ کے خطرے سے نمٹ لیں گے۔ فی الحال انھوں نے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہ مختلف قسم کے سوالات پر غور کر رہے ہیں۔ جیسے: کبوتر مسلمان ہے یا پھر ہندو؟ کیا اس میں کسی طور گائے کے گوشت کا تو معاملہ شامل نہیں؟ اگر کبوتر کو ضمانت پر رہائی مل جاتی ہے تو کیا وہ گواہوں کو متاثر کرنے کی کوشش تو نہیں کرے گا؟ کیا اسے انڈیا کے کبوتر سے کسی قسم کی مدد ملی ہے؟ کیا ہمیں فضائیہ کا استعمال کرنا چاہیے؟ یہ جتنا کھانا کھا رہا ہے اس کا بل کون ادا کرے گا؟ ہم اپنی سکیورٹی فورسز کی عزت کرتے رہیں گے نہیں تو وہ ہمیں گولی مار سکتے ہیں لیکن کبوتر کے بارے میں بھی تو ذرا سوچیں۔ یہ معصوم کبوتر جو کبھی ’’امن کے علمبردار‘‘ ہوتے تھے اب جہادی ان کی بھی برین واشنگ کی جا رہی ہے۔