واشنگٹن/ماسکو(این این آئی)روس نے امریکا کے ساتھ نیوکلیئر اور توانائی کے سیکٹروں میں تحقیق کے میدان میں تعاون کے معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل کر دیا ،دوسری جانب حالیہ اقدام پر پہلے امریکی ردعمل میں وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے روس کے یک طرفہ فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو روس کی جانب سے سرکاری طور پر مطلع نہیں کیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا پتہ دینے والا یہ تازہ ترین اقدام ہے۔ مذکورہ پیش رفت نے نیوکلیئر کارڈ کو بھی پوری طاقت کے ساتھ روس اور امریکا کے درمیان مقابلے کے میدان میں داخل کر دیا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق روسی حکومت نے بتایا کہ وہ ان ہی وجوہات کی بنا پر نیوکلیئر توانائی کے لیے سرکاری کمپنی روس ایٹم اور امریکی وزارت توانائی کے درمیان معاہدے کو منسوخ کر دے گی۔ اس معاہدے کے تحت روسی ریسرچ ری ایکٹروں کو اعلی افزودہ یورینیئم پر کام کرنے سے بدل کر کم افزودہ یورینیم پر کام کرنے کے حوالے سے مطالعاتی تحقیق کی جانی تھی۔اس سے قبل روسی صدر ولادیمر پوتن نے واشنگٹن کے ساتھ.. ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والی سطح کے پلوٹونیم کو ناکارہ بنانے کے معاہدے کو ملتوی کر دیا تھا۔ یہ اس جانب واضح اشارہ ہے کہ نیوکلیئر معاملے کو یوکرین اور شام کے حوالے سے امریکا کے ساتھ اختلافات میں سودے بازی کے نئے کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔نیوکلیئر اور توانائی کے میدان میں سائنسی تحقیق سے متعلق تعاون کے معاہدے پر 2013 میں دستخط کیے گئے تھے۔ یہ معاہدہ امریکی اور روسی تجربہ گاہوں اور اداروں کے درمیان کام کو وسیع کرنے کے لیے مطلوبہ قانونی دائرہ کار فراہم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں نیوکلیئر ٹکنالوجی کی ترقی اور نیوکلیئر ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے سلسلے میں تعاون کے لیے ایک عملی ڈھانچہ وضع کرتا ہے۔دوسری جانب روس کے حالیہ اقدام پر پہلے امریکی ردعمل میں وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے روس کے یک طرفہ فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو روس کی جانب سے سرکاری طور پر مطلع نہیں کیا گیا ہے۔اس حوالے سے مسلسل سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آیا مذکورہ روسی فیصلے امریکا کی جانب سے شام کے حوالے سے مکالمہ منقطع کرنے کا ردعمل ہیں یا یہ دنیا کی دو سب سے بڑی نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان کشیدگی کے خطرناک حد تک بڑھنے کی جانب اشارہ ہے ؟۔