استنبول (مانیٹرنگ ڈیسک )استنبول بم دھماکے، ترک صدر کی عالمی برادری سے تعاون کی اپیل ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے تعاون کی اپیل کر دی ہے۔ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر رجب طیب ا ردوان کے جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں استنبول میں اتاترک ہوائی اڈے پر دہشت گرد حملے کے نتیجہ میں 50 افراد کی ہلاکت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ استنبول میں پھٹنے والے بم کسی دوسرے ملک کے شہر میں کسی بھی ایئر پورٹ پر ہو سکتے تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں شدید افسوس ہے کہ اس میں بے گناہوں کی جانیں چلیں گئیں اور سینکڑوں زخمی حالت میں ہسپتالوں میں ہیں ، انہوں نے کہا کہ دہشت گرد اب زیادہ دیر چھپ نہیں سکتے ، انہوں نے متاثرین کے لواحقین کے ساتھ اظہار تعزیت بھی کی ، انہوں نے ان حملوں کے سد باب کرنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
یاد ر ہے کہ اس سانحے میں 36افرادہلاک اور150زخمی ہوگئے، ادھراستنبول پر حملے کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے امریکی شہریوں کے لیے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عوامی اور سیاحتی مقامات پر جاتے وقت ہوشیار رہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق ائیرپورٹ پر کل تین خودکش حملہ آوروں نے دھماکے کیے ،ایک دہشت گرد بین الاقوامی روانگی کے ٹرمینل میں داخل ہوا اور پہلے کلاشنکوف سے فائرنگ کی اور بعد میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری ہونے والی ویڈیو میں ایک پولیس افسر ایک حملہ آور پر فائرنگ کر کے اسے زخمی کرتا ہے۔ فرش پر پڑا زخمی حملہ آور اسی دوران خود کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق دھماکوں کے فوری بعد زخمیوں کو وہاں کھڑی ٹیکسیوں کے ذریعے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ سکیورٹی اہلکاروں نے مشتبہ حملہ آوروں کو ہوائی اڈے کے داخلی راستے پر روکنے کے لیے فائرنگ کی۔ایئر پورٹ پر حملے کے بعد پروازوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور یہاں اترنے والی پروازوں کو متبادل ہوائی اڈوں کی جانب موڑدیاگیا۔دھماکوں کے وقت ایئر پورٹ پر موجود جنوبی افریقہ کے دو سیاحوں پال اور سوزی رؤس کے مطابق وہ واپس اپنے ملک جانے کے لیے ایئر پورٹ پر پہنچے تھے۔ایک عینی شاہد نے بتایاکہ ہم پروازوں کی آمد کے ٹرمینل سے سڑھیوں کے ذریعے اوپری منزل پر روانگی کے ٹرمینل پر پہنچے کہ اس دوران فائرنگ شروع ہو گئی، وہاں ایک شخص فائرنگ کر رہا تھا اور اس نے کالے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے ہاتھ میں دستی بم تھا۔حملے میں بچ جانے والے عثمان اکثر کا کہنا تھاکہ میں ایئر پورٹ پر اپنے تین سوٹ کیسوں کو ریپ کروا رہا تھا کہ اچانک میں نے دھماکے کی آواز سنی۔ پولیس نے ہمیں نیچے لیٹ جانے کو کہا۔ سوٹ کیسوں پر کور چڑھانے والی مشین کی وجہ سے ہم فائرنگ کے تبادے سے محفوظ رہے۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس جب کہ پولیس حملہ آوروں پر فائرنگ کر رہی تھی کہ اْس کے بعد ایک اور دھماکا ہوا اور ہمارے ارد گرد تمام افراد اس دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔ادھرترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے ایک بیان میں حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کرتے ہوئے کہاکہ اس شدت پسند تنظیم کے دھماکے میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ملے ہیں جبکہ دھماکوں میں کم از کم 36 افراد ہلاک اور 80 سے زیادہ زخمی ہو گئے ۔انھوں نے کہا کہ زخمیوں اور ہلاک شدگان میں غیر ملکی بھی شامل ہو سکتے ہیں تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔وزیراعظم کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حملوں میں خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم ملوث ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ استنبول ایئر پورٹ پر حملوں کا مقصد معصوم لوگوں کے خون اور تکلیف کے ذریعے ان کے ملک کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ہے۔انھوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن موقف اپنائے۔استنبول کے گورنر واسب ساہن نے صحافیوں کو بتایاکہ تین خودکش حملہ آوروں نے یہ حملہ کیا۔دھماکوں کے فوری بعد امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق وزیر انصاف باقر بوزدق نے کہاکہ مجھے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایک دہشت گرد بین الاقوامی روانگی کے ٹرمینل میں داخل ہوا اور پہلے کلاشنکوف سے فائرنگ کی اور بعد میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
استنبول پر حملے کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے امریکی شہریوں کے لیے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ عوامی اور سیاحتی مقامات پر جاتے وقت ہوشیار رہیں۔استنبول کا کمال اتاترک ایئر پورٹ یورپ کا تیسرا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے اور گذشتہ برس چھ کروڑ دس لاکھ مسافروں نے اسے استعمال کیا۔ترکی میں کرد علیحدگی پسندوں اور حکومت کے درمیان کشیدگی اور ہمسایہ ملک شام میں جاری تنازع کی وجہ سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔رواں ماہ ہی استنبول کے وسطی علاقے میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔یادرہے کہ ترکی کو دو اطراف سے دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے۔ شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی جانب سے اور کرد ریاست میں علحیدگی پسند کرد باغیوں سے۔ استنبول میں ہونے والا دھماکوں میں خودکش حملہ آور خود کار ہتھیاروں سے لیس تھے عموماً دولت اسلامیہ اس طرح سے حملہ کرتی ہے۔گذشتہ ایک سال سے ترکی میں کردش ملیشیا اور دولتِ اسلامیہ کے حملوں سے سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ترکی میں گذشتہ برس سے اب تک جتنے دھماکے ہوئے ہیں ان کی ذمہ داری یا تو کرد ملیشیا یا پھر شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ قبول کرتی رہی ہے۔
استبول دھماکے ! افسردہ ترک صدر نے دنیا بھر سے بڑی اپیل کر دی ،کیا کہا ؟جانئے
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں