تہران/اوٹاوا(این این آئی)کینیڈا کی ایک عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ تہران کی جانب سے منصوبہ بند حملوں کے متاثرہ افراد کو ہرجانے کی ادائیگی کے لیے کینیڈا میں ایرانی حکومت کی غیرسفارتی رقوم کو استعمال کیا جائے۔ ان حملوں پر عمل درآمد لبنانی تنظیم حزب اللہ اور فلسطینی تنظیم حماس نے کیا تھا۔میڈیارپورٹس کے مطابق اونٹاریو میں سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا کہ 1983ء سے 2002ء کے درمیان دھماکوں اور یرغمالیوں کے اغوا کی آٹھ کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے امریکی شہریوں کے خاندانوں کو، کینیڈا میں ایرانی حکومت کی ملکیت منقولہ و غیرمنقولہ مالی اثاثوں سے رقم منہا کر کے ہرجانہ ادا کیا جائے گا۔کینیڈا کے ذرائع ابلاغ کے مطابق اس رقم کی قیمت تقریبا 1 کروڑ 30 لاکھ کینیڈیئن ڈالر (تقریبا 1 کروڑ امریکی ڈالر) ہے۔امریکی مقتولین کے خاندانوں نے کینیڈا میں یہ مقدمہ 2012 میں منظور کیے جانے والے ایک نئے قانون کے تحت دائر کیا تھا۔ اس قانون کے مطابق کارروائی کا شکار افراد اور ان کے اہل خانہ، ان ملکوں کے مالی اثاثوں سے ہرجانے کی رقم حاصل کرسکتے ہیں جن کو کینیڈا کی حکومت دہشت گردی کا سرپرست شمار کرتی ہے۔ کینیڈا بھی ایران کو ان ہی ملکوں میں شمار کرتا ہے۔مقدمے کے متن میں شامل حملوں میں بیونس آئرس، اسرائیل، لبنان اور سعودی عرب میں سیکڑوں امریکی مارے گئے تھے۔ ان ہی خاندانوں نے اسی کے مماثل ایک مقدمہ امریکی عدالت میں بھی دائر کیا تھا جس نے اپریل میں مذکورہ حکم سے ملتا جلتا فیصلہ جاری کیا تھا جس پر ایران کی جانب سے شدید اعتراض بھی سامنے آیا۔20 اپریل کو ایک امریکی عدالت نے یہ احکامات جاری کیے تھے کہ ایران اپنے امریکا میں منجمد اثاثوں میں سے دو ارب ڈالر ہرجانے کی رقم ادا کرے ۔اس ہرجانے کا مطالبہ اْن 1000 کے قریب امریکیوں کے خاندانوں نے کیا جو تہران کی جانب سے منصوبہ بند یا اس کی سپورٹ سے ہونے والے حملوں کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ادھر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسن جابر انصاری نے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق انصاری نے نے کہاکہ یہ فیصلہ کینیڈا کی بین الاقوامی پاسداری کے منافی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ کینیڈا کی نئی حکومت کی جانب سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول کے مطابق بنانے کی یقین دہانیوں سے بھی متصادم ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے کینیڈیئن حکومت کی شدت پسند اور غلط پالیسیوں پر نظر ثانی ضروری ہے۔