نئی دہلی(نیوز ڈیسک) بھارت میں گزشتہ دو برسوں کے دوران مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، تعلیم اور صحت کے اخراجات میں حیران کن اضافہ بھارت کے اس متوسط طبقے کی کمر توڑ رہا ہے، جس نے مودی حکومت سے مہنگائی میں کمی کی امیدیں لگا رکھی تھیں۔بھارتی ٹی وی کے مطابق بھارت کے ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی نے انتخابات سے پہلے بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کو قابو کرنے کے بہت سے وعدے کیے تھے لیکن حقیقت ان کے برعکس نظر آ رہی ہے۔ کولکتہ میں کام کرنے والے ایک سینتالیس سالہ آئی ٹی کے ماہر اور سرکاری ملازم سمبودھا بینرجی کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھاکہ میرے بیٹے کے اسکول کے خرچ اور اہل خانہ کے میڈیکل اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے پٹرول کی مد میں دی جانے والی رعایت بھی ختم کر دی ہے اور پنشن سیونگ پر ٹیکس بھی بڑھا دیا ہے۔ اب یہ سب کچھ ناقابل قبول ہے۔بھارتی وزارت خزانہ کے ایک سینیئر عہدیدار کا اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت بھی اس مسئلے سے آگاہ ہے اور مڈل کلاس طبقے کا بوجھ کم کرنے کے لیے ملک کے دس ملین سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ افراط زر کے حوالے سے اعداد و شمار جمع کرنے والی بھارتی وزارت شماریات کے مطابق نریندر مودی کی حکومت مئی 2014میں اقتدار میں آئی تھی اور اس کے بعد سے تعلیمی اخراجات میں تیرہ فیصد، ہاو ¿سنگ اخراجات میں دس فیصد، صحت کے شعبے میں اخراجات میں چودہ فیصد اور بجلی کی قیمتوں میں آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب نریندر مودی کی کامیابی کے بعد سے کھانے پینے کی زیادہ تر اشیاءاور مشروبات کی قیمتیں کم ہوئی ہیں لیکن متوسط طبقے کی پسندیدہ ترین اشیائ میں انڈے اور دودھ شامل ہیں اور ان دونوں اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح موٹرسائیکلوں اور کاروں والے بھی ناراض ہیں کیوں کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کہ وجہ سے جو فائدہ انہیں ہوتا تھا وہ حکومت کی طرف سے عائد کیے جانے والے اضافی ٹیکسوں کی وجہ سے اب نہیں ہو رہا۔بھارت میں اگلے قومی انتخابات ابھی تین برس بعد ہوں گے لیکن حکومت کا امتحان ریاستی انتخابات بھی ہیں۔ مغربی بنگال اور آسام میں سن2016 کے اختتام پر انتخابات ہونے والے ہیں اور سب سے اہم انتخابی معرکہ آئندہ برس ریاست اتر پردیش میں ہوگا۔