اسٹاک ہوم(اے ا یف پی)نوبیل انعام کا نام سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں انسانیت کی بہتری کیلئے کی جانے والی تحقیق کا خیال آتا ہے لیکن یہ معتبر ایوارڈ ماضی میں ایسے سائنسدانوں کو بھی دیا جاچکا ہے جن کی تحقیقات نے آگے چل کر انسانیت کو نقصان پہنچایا۔ ایوارڈ یافتہ سائنسدانوں میں وہ بھی شامل ہیں جن کی تحقیق آگے چل کر کیمائی اور ایٹمی حملے کا موجب بنیں اور نوبیل کمیٹی کو اپنے انتخاب پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ نوبیل انعام کی تحقیقاتی کمیٹیوں کی سفارش پر ماضی میں غیر انسانی تحقیقات اور ضرر رساں دریافت پر بھی نوبیل ایوارڈز دیے گئے جن کی وجہ سے انسانیت کا نقصان ہوا۔ 1918 میں کیمائی جنگ کے بانی سمجھے جانے والے جرمن کیمیاءدان فرٹز ہیبر کو کیمسٹری کے شعبے میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔انہوں نے امونیا کے ذریعے فرٹیلائزرز تیار کرنے کا طریقہ دریافت کیا تھا جس کے استعمال سے پیداوار میں اضافہ ممکن ہوا لیکن ہیبر نے بعض ایسی زہریلی گیسز بھی دریافت کیں جن کا استعمال پہلی جنگ عظیم میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ہیبر کو یقین نہیں تھا کہ انہیں نوبیل انعام ملے گا لیکن ایوارڈز کا فیصلہ کرنے والی جیوری کو شاید پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی تباہی کے پیچھے ہیبر کا ہاتھ ہونے کا معلوم نہیں تھا۔ 1945 میں امریکا کی جانب سے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے جانے کے فوراً بعد جوہری انشقاق کے موجد جرمن سیاستدان اوٹو ہان کو بھی نوبیل ایوارڈ سے نواز دیا گیا۔ انہوں نے 1938 میں جوہری انشقاق کا نظریہ پیش کیا تھا جو آگے چل کر ایٹم بم کی تخلیق کا موجب بنا۔ماضی میں ہمیں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جب نوبیل انعام نوازے جانے کے حوالے سے تنازعات سامنے آئے، کبھی کوئی مصنف کہتا ہے کہ اسے نظر انداز کیا گیا، کبھی کوئی سائنسدان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی دریافت کو پس پشت ڈال دیا گیا تو کبھی امن انعام پر تنازع پیدا ہوجاتا ہے۔1912 میں زہریلی گیس دریافت کرنے والے فرانسیسی کیمسٹ وکٹر گریگنارڈ کو بھی نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ اسی طرح پرتگالی نیورو لو جسٹ ایگاس مونس کو 1949 میں طب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ انہیں یہ انعام دماغ کی سرجری کا متنازع طریقہ متعارف کرانے پر دیا گیا جسے آج کل لوبوٹومی کہا جاتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ جس وقت مونس نے دماغ کی سرجری کا طریقہ متعارف کرایا اس وقت اور کوئی طریقہ موجود نہیں تھا اس لیے ان کا طریقہ متنازع ہونے کے باوجود نوبیل انعام دینا جائز تھا۔ نوبیل ریسرچ کمیٹی نے ایسے سائنسدانوں کو بھی انعامات سے نوازا جن کی ما حو لیا ت کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے مذمت کی۔ 1948 میں سوئس سائنسدان پال مولر کو ملیریا پھیلانے والے مچھر اور کیڑوں کو مارنے والی دوا ڈی ڈی ٹی ایجاد کرنے پر ایوارڈ سے نوازا گیا، بعد میں معلوم ہوا کہ ڈی ڈی ٹی انسانوں اور جانوروں کیلئے بھی نقصان دہ ہے اور اس کے استعمال پر پابندی لگادی گئی۔اسی طرح 2013 میں نوبیل کمیٹی نے اہم ترین امن انعام کیمیائی ہتھیا رو ں کی روک تھام کرنے والے ادارے او پی سی ڈبلیو کو دیدیا تھا۔