لاہور (نیوزڈیسک) حج سے سعودی عرب کی حکومت کو ہونے والی آمدنی کبھی کساد بازاری کا شکار نہیں ہوئی۔ حج و عمرے سے سالانہ آمدنی کا تخمینہ 30 ارب ڈالرز لگایا گیا جو سعودی مجموعی قومی پیداوار کا 7 فیصد جبکہ صرف حج سے آمدنی جی ڈی پی کا تین فیصد ہے۔ اس حوالے سے 2009ء اور2014ء کے درمیان مکہ ایوان صنعت و تجارت، سعودی کمیشن برائے سیاحت اور ذرائع کے اعداد و شمار کے جائزے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ اکتوبر 2014ء کے حج سیزن سے دو ماہ قبل مذکورہ اداروں نے حج سے ممکنہ آمدنی کا تخمینہ 32 ارب ریال (8 ارب 50 کروڑ ڈالرز) لگایا جو 2013ء کے حج کے مقابلے میں تین فیصد اضافہ ہے۔ روزنامہ جنگ کے صحافی صابرشاہ کی رپورٹ کے مطابق ایک تخمینے کے مطابق 19 لاکھ 80 ہزار عازمین نے حج کی نیت سے مکہ مکرمہ کی جانب سفر کیا جن میں سے 13 لاکھ 80 ہزار (تقریباً 70 فیصد) غیرملکی تھے۔ جو 5 روزہ مناسک کے دوران ان کے فی کس اوسط اخراجات 17 ہزار 381 ریال (4633 ڈالرز) بتائے گئے جبکہ مقامی عازمین نے فی کس 4948 سعودی ریال (1319 ڈالرز) ادا کئے، جس میں رہائش، خوراک، تحائف اور ٹیلی فون بلز شامل ہیں۔ تاہم ایک سعودی اخبار کے مطابق 2013ء میں سعودی حکومت کو حج سے کہیں زیادہ آمدنی ہوئی۔ 2012ء میں 62 ارب ریال (16 ارب 50 کروڑ ڈالرز) کی آمدنی ہوئی جو 2011ء کے مقابلے میں 10 فیصد زائد رہی۔ حکومت کو حج سے آمدنی جی ڈی پی کا تین فیصد ہوتی ہے۔ ذرائع کے مطابق 2011ء میں حج کے دوران دس روز میں ہونے والی آمدنی کا تخمینہ 10 ارب ڈالرز رہا۔ ایک برطانوی اخبار کے مطابق 2010ء میں حج سے آمدنی 17 ارب 60 کروڑ ڈالرز رہی جبکہ سعودی عرب کو مذہبی مقامات کی زیارت کیلئے آنے والوں سے سالانہ 30 ارب ڈالرز آمدنی ہوتی ہے، جو مجموعی قومی پیداوار کا 7 فیصد ہے جبکہ دوران سال عمرے بھی ادا کئے جاتے ہیں۔ حج کے موقع پر قربانی کے لئے جانور کی قیمت اوسط 130 ڈالرز فی کس پڑتی ہے۔ اس میں کچھ دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھئے:آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 50کروڑ ڈالر کی منظوری دیدی