۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ میٹ پولیس افسروں نے محسن علی سید اور کاشف خان کامران کو اس کیس میں مطلوب قرار دیا تھا۔30 سالہ پاکستانی محسن فروری، 2010 سے 16 ستمبر،2010 تک جبکہ 36 سالہ کاشف ستمبر،2010 سے قتل کے روز تک برطانیہ میں مقیم رہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ نے کیس کی تحقیقات کے دوران تین افراد کو حراست میں لیا، تاہم بعد میں انہیں فرد جرم عائد کیے بغیر رہا کر دیا گیا۔انگریزی اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دونوں ملزمان محسن اور کاشف خان کامران نے ایسٹ لندن میں لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز میں داخلے کی بنیاد پر برطانوی ویزے حاصل کیے۔محسن فروری،2010 میں برطانیہ پہنچے اور لندن میں مختلف مقامات پر رہائش رکھی، جبکہ کاشف ا ±سی سال ستمبر میں وہاں گئے،برطانیہ کی جانب سے شیئر ہونے والی معلومات کے مطابق،ٹیلی فون ریکارڈ بتاتے ہیں کہ محسن اور کاشف عموماً ایک ساتھ نقل و حرکت کرتے اور مبینہ طور پر ایم کیو ایم سربراہ الطاف حسین کے ایک قریبی رشتہ دار سے رابطے میں تھے،دونوں 16 ستمبر،2010 میں قتل کے کچھ گھنٹوں بعد برطانیہ سے سری لنکا چلے گئے، جہاں سے وہ 19 ستمبر کو کراچی پہنچے۔ تقریباً دو مہینے قبل ایف سی نے محسن اور ایک دوسرے ملزم خالد شمیم کو بلوچستان سے گرفتار کیا ۔سکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم نے جولائی میں اسلام آباد کا دورہ کرتے ہوئے دوسرے ملزموں معظم علی خان اور خالد شمیم سے تحقیقات کی تھیں۔معظم علی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے رواں سال کراچی سے گرفتار کیا تھا۔ان پر محسن اور کاشف کے برطانیہ دورے کیلئے ٹکٹ، ویزے اور مالی معاونت فراہم کرنے کا الزام ہے۔خبریں ہیں کہ لندن میٹروپولیٹن پولیس قائل ہے کہ محسن اور کاشف نے برطانیہ سے فرار ہونے سے پہلے عمران فاروق کو قتل کیا۔ کاشف کے بارے میں کچھ معلومات میسر نہیں اور قیاس آرئیاں کے مطابق کہ وہ زندہ نہیں۔خالد شمیم پر الزام ہے کہ وہ اس قتل کی منصوبہ بندی میں شامل تھے اور تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے ہی محسن اور کاشف کی معظم علی سے ملاقات کروائی۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں