جدہ(نیوز ڈیسک)سعودی عرب نے تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے پہلی بار خواتین کو بلدیاتی انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے رجسٹریشن کروانے کی اجازت دے دی ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سعودی عرب جیسے ملک میں جہاں خواتین پر بہت سی پابندیاں موجود ہیں حکومت کے اقدام کو احسن انداز میں دیکھا جارہا ہے تاہم سعودی حکومت کے اس اقدام کو ملک کی دائیں بازوں کی جماعتیں تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں خواتین ووٹروں کو اس سال دسمبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ووٹر کی حیثیت سے رجسٹریشن کروانے کی اجازت دی گئی تھی۔ایک سعودی بلاگر امان النفجان جو ریاض میں ووٹر کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہیں کا کہنا تھا کہ انتخابات میں حصہ لینا ایک مثبت اقدام ہے تاہم ساتھ ہی انھوں نے خبردار بھی کیا کہ خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے میں مختلف رکاوٹیں موجود ہیں۔خیال رہے کہ گلف کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر رکھنے والے ملک میں خواتین کے ڈرائیونگ کرنے پر پابندی ہے اور عوامی مقامات پر ان کو سر سے پاو¿ں تک خود کو ڈھاپنے کا حکم ہے۔سعودی خواتین کو کام سفر، شادی اور پاسپورٹ بنوانے کے لیے بھی مرد سربراہ کی اجازت کی ضرورت ہے۔یاد رہے کہ خواتین کو ووٹ اور بحیثیت امیدوار انتخاب لڑنے کا حق دینے کی منظوری سابق سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ نے 2011 میں دی تھی۔عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں 70 خواتین بطور امیدوار حصہ لے رہی ہیں، جبکہ 80 خواتین الیکشن میں بطور کیمپین مینیجر بھی خدمات انجام دیں گی۔قطر سے تعلق رکھنے والے عرب نیوز چینل کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی انسانی حقوق کے کارکنان کا خیال ہے کہ خواتین کو پہلی بار ووٹ کا حق حاصل ہوا ہے اس لیے ان کی رائے پر والدین، شوہر یا بھائیوں کی رائے حاوی ہو گی اور ان کی تجویز پر ووٹ دیئے جا سکتے ہیں۔