اسلام آباد(سپیشل رپورٹ)1965کی پاکستان بھارت جنگ کے50سال مکمل ہونے کے موقعے پر جاری کی گئی ایک خفیہ امریکی دستاویزمیں اس بات کا سنسنی خیز انکشاف کیا گیا ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر نے جموں کشمیر میں رائے شماری نہ کرانے کے حوالے سے بھارت کی حمایت کی تھی۔ دستاویز میں جنگ کے دوران امریکی حکام کی دونوں ملکوں کے رہنماوں کے ساتھ کئی ملاقاتوں اور خط وکتابت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے امریکی صدر لینڈن جانسن کے نام لکھے ایک خط میں کشمیر میں رائے شماری کو لیکر1948کی اقوام متحدہ کی قرارداد کو ناقابل قبول قرار دیا تھا۔دستاویز کے مطابق جب جنگ زوروں پر تھی لعل بہادر شاستری نے لینڈن جانسن کو لکھے خط میں آگاہ کیا تھا کہ بھارت غیر مشروط جنگ بندی پر اتفاق کرنے کیلئے رضامند ہے۔ 16 ستمبر 1965کو تحریر کردہ خط میں اس دلیل کے ساتھ جموں کشمیر میں رائے شماری کو خارج از امکان قرار دیا گیا تھا کہ اس ضمن میں 1948 میں اقوام متحدہ کی طرف سے منظور کردہ قرار داد اب بھارت کو تسلیم نہیں۔ شاستری نے اپنے خط میں لکھامیں دوٹوک الفاظ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جموں کشمیر کے لوگوں کی مرضی جاننے کیلئے رائے شماری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب ہم نے1947میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی جارحیت کے خلاف شکایت درج کی ، تو ہم نے اس وجہ سے یکطرفہ طور پر جموں کشمیر میں رائے شماری کرانے پر اتفاق کیا کہ اس وقت ریاست میں جمہوریت نہیں تھی ،ریاست کے الحاق کے بعد ہم نے جمہوری اداروں کی بنیاد ڈالی ،بھارتی وزیر اعظم نے یہ خط اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے اس بیان کے چند روز بعد لکھا تھا جس میں انہوں نے امریکہ پر واضح کیا تھاکہ پاکستان ملک کی حیثیت سے تنزلی کیلئے تیار ہے لیکن وہ کشمیر پر اپنے دعوے سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔دستاویز کے مطابق جس روز بھارتی فورسز پاکستان میں داخل ہوئیں، اسی دن اسلام آباد میں امریکی سفیر والٹر پیٹرک میکوناٹھی نے اس وقت کے پاکستانی صدر ایوب خان اور وزیر خارجہ بھٹوکے ساتھ ملاقات کی جو امریکہ، اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے کشمیر میں رائے شماری کی ضمانت چاہتے تھے۔ملاقات کے دوران والٹر پیٹرک نے دونوں پاکستانی لیڈران کوسخت پیغام دیتے ہوئے پاکستان کو ہی جنگ کیلئے ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ پاکستانی فورسز نے کشمیر کے اندر بھیج کر وہ امریکی ہتھیار بھارت کے خلاف استعمال کئے جو کمیونسٹ چین کے خلاف استعمال کرنے کی غرض سے دیئے گئے تھے۔اسی روز جانسن انتظامیہ نے اسلام آباد میں اپنے سفیر کو ٹیلی گرام کے ذریعے ہدایت دی کہ وہ پاکستان کو اس بات کا سخت پیغام دیں کہ وہ خود کو مظلوم جتلانے کی کوشش نہ کرے کیونکہ صورتحال کیلئے وہی ذمہ دار ہے۔بھارتی فوج کے پاکستان میں داخل ہونے کے چارروز بعد امریکی سفیر والٹرپیٹرک سیز فائر کی پیشکش کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقاتی ہوئے تاکہ بقول ان کے پاکستان کے علاقائی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔امریکی سفیر نے اس معاملے پر راولپنڈی میں بھٹو کے ساتھ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی حکومت کو بھیجے گئے اپنے پیغام میں کہابھٹو کا کہنا ہے کہ پاکستان لاٹھیوں اور پتھروں کے سہارے اور ضرورت پڑنے پر خالی ہاتھوں سے بھی اس جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے گا۔امریکی سفیر نے کہا تھابھٹو نے مجھ سے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کو ان کے حقوق دلانے اور ان کی جدوجہد جاری رکھنے کیلئے اپنی تمام جائیداد اور ورثہ تک فروخت کرے گا۔9ستمبر1965کو امریکی سفیر نے ایک غیر مشروط سیز فائر کی تجویز لیکر بھٹو سے ملاقات کی تو پاکستان کے وزیر خارجہ نے اس تجویز کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ جنگ بندی کا تعلق کشمیر میں رائے شماری کے ساتھ ہونا چاہئے۔والٹر کے مطابق میں نے ان سے کہا کہ بھارت اس کیلئے تیار نہیں!تو انہوں نے جواب دیاکشمیری عوام کو خود فیصلہ کرنا ہوگا، انہیں حق خودارادیت دیئے بغیر کوئی بھی حل مکمل نہیں ہوسکتا، یہ پاکستان کی بقاکی جنگ ہے۔امریکی سفیرنے اپنی حکومت کو یہ بھی کہا تھا کہ جب بھارت لاہور پر قبضہ کرنے کے قریب تھا تو ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں کہا تھا آپ صرف لاہور کی ایک جنگ کی بناپر لوگوں اور ان کے اعتماد کو تباہ نہیں کرسکتے۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکام کو بھارت اور پاکستان کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کیلئے سخت مشقت کرنا پڑی تھی۔