بدھ‬‮ ، 05 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

بھارت میں 86فیصدریپ رشتے داروں اور جاننے والوں نے کیے،رپورٹ

datetime 21  اگست‬‮  2015
Indian photojournalists hold placards as they take part in a protest rally in Mumbai on August 23, 2013. Five men gang-raped a woman photographer in India's financial hub Mumbai, police said on August 23, stirring memories of a similar incident eight months ago in New Delhi which triggered nationwide protests. AFP PHOTO/ PUNIT PARANJPE (Photo credit should read PUNIT PARANJPE/AFP/Getty Images)
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نئی دہلی(نیوزڈیسک)بھارت میں گزشتہ برس ہونے والے جنسی حملوں میں تقریبا 90 فیصد ایسے افراد ملوث تھے، جو متاثرہ خواتین کو پہلے ہی سے جانتے تھے، یا تو متاثرہ لڑکیوں کے رشتے دار تھے، ہمسائے تھے یا پھر ان کے ساتھ دفتر وغیرہ میں کام کرتے تھے۔بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو نے جمعہ کو اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ، جس کے مطابق 2014 میں خواتین کے خلاف تشدد، جنسی حملوں، چھیڑ چھاڑ اور عصمت دری کی تین لاکھ سینتیس ہزار نو سو بائیس شکایات درج کروائی گئیں۔ بتایا گیا ہے کہ 2013 کے مقابلے میں یہ شکایات نو فیصد زائد تھیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے کیے گئے تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔اسی طرح بھارت میں جنسی زیادتی کے واقعات میں بھی نو فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔2014 میں بھارت بھر میں جنسی زیادتی کے تینتیس ہزار سات سو سات واقعات پیش آئے جبکہ ان میں سے اٹھارہ سو تیرہ واقعات کے ساتھ دارالحکومت نئی دہلی سرفہرست شہر رہا۔ جنسی زیادتی کے یہ وہ واقعات ہیں، جن کی رپورٹیں درج کروائی گئیں جبکہ ایسے درج نہ کروائے جانے والے واقعات کی تعداد کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا۔ بھارت میں سینکڑوں خواتین اپنی اور اپنے خاندان کی بدنامی کے ڈر سے ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کر لیتی ہیں جبکہ متعدد خواتین ان پڑھ یا غریب ہونے کی وجہ سے پولیس تک ہی نہیں پہنچ پاتیں۔اسی طرح بھارت کا شہر ممبئی جنسی زیادتی کے چھ سو سات واقعات کے ساتھ دوسرے جبکہ بنگلور ایک سو تین واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ جاری کیے گئے اعداو شمار سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت میں چھیاسی فیصد ریپ قریبی رشتے داروں نے کیے، جن میں ان کے والد، بھائی، انکل، ہمسائے اور دفاتر میں ان کے ساتھ کام کرنے والے شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق جن خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ان میں سے اڑتیس فیصد (چودہ ہزار ایک سو دو) کی عمریں اٹھارہ برس سے بھی کم تھیں۔نئی دہلی میں سماجی امور کی تحقیق کے مرکز کی ڈائریکٹر رنجنا کماری کا کہنا تھا، ہمیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام محاذوں پر لڑنا ہو گا۔ یہ مسئلہ صرف بہتر پولیس جبکہ عوامی اور ٹرانسپورٹ مقامات کو محفوظ بنانے سے حل نہیں ہو گا۔ اعداد و شمار ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمیں اپنے ارد گرد، گھروں، محلوں اور دفاتر میں بھی اس حوالے سے نظر رکھنا ہو گی۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور اس حقیقی تعداد کو منظر عام پر لانا بہت ضروری ہے۔



کالم



دنیا کا انوکھا علاج


نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…

دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ

میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا…