واشنگٹن(نیوز ڈیسک) امریکا کے سینیئر ملٹری عہدیدار کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجو افغانستان اور خاص طور پر پاکستانی سرحد کے قریب واقع علاقوں میں طالبان عسکریت پسندوں سے لڑرہے ہیں۔واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران بریگیڈیئر جنرل ولسن شوفنر نے کہا کہ افغانستان میں داعش کو حاصل ہونے والی ترقی یہاں 14 سال سے جاری فوجی مشن کے اختتام پر امریکی منصوبہ بندی پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔خیال رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے 2016ءکے اختتام تک تمام امریکی فوج افغانستان سے نکالنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ اوباما انتظامیہ گذشتہ سال دسمبر میں ایک لاکھ امریکی فوجوں کا انخلاءمکمل کرواچکی ہے۔امریکی فوج کے سینیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں داعش اور طالبان کے درمیان کچھ لڑائیاں دیکھی گئی ہیں۔‘ عام طور پر یہ جھڑپیں داعش کی طالبان علاقوں میں داخل ہونے کی کوشش اور طالبان کی کارروائیوں میں مداخلت کا نتیجہ ہیں۔افغانستان میں امریکی مشن کے مواصلات کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف بریگیڈیئر جنرل ولسن شوفنر کا کہنا تھا کہ داعش اور طالبان کے درمیان ہونے والی بیشتر لڑائیاں ننگرہار کے علاقے میں ہوئی ہیں اور جنگ کے دوران ان لڑائیوں کی امید تھی.ان کا کہنا تھا کہ دونوں گروپوں کے درمیان ہلمند کے علاقے میں بھی جھڑپیں ہوئی ہیں اور دونوں ہی صوبے پاکستان کے سرحدی علاقے کے قریب ہیں۔امریکی فوجی عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ اپنے افغان دوستوں کے ساتھ یہاں سیکیورٹی قائم کرنے کے حوالے سے پ±رعزم ہیں اور جو کوئی بھی دہشت گردی میں ملوث ہوگا ہم اس کے لیے فکر مند ہوں گے۔انھوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کچھ طالبان خود کو ان سے علیحدہ کرچکے ہیں اور داعش کہلاتے ہیں۔ ’ہم نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہے، تاہم ہمیں یقین ہے کہ یہ سب بہتر قیادت یا توجہ حاصل کرنے اور وسائل پر قبضے کے لیے ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ دو دشمنوں کی لڑائی سے امریکا اور افغان فورسز کو کیا مسائل ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے اس مسئلے کا شکار افغان شہری ہیں اور اس طرح یہ سیکیورٹی مسئلہ بھی ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں