دبئی (نیوزڈیسک )ایران میں قدامت پسندوں اور اصلاح پسند قوتوں کے درمیان جاری کشمکش کے دوران قدامت پسندوں کی مخالفت کی پاداش میں کئی سرکردہ رہ نمائوں کو جیل کی ہوا بھی کھانا پڑتی ہے۔ ایسا ہی واقعہ ایران کے ایک اصلاح پسند عالم دین کے ساتھ بھی پیش آیا جنہوں نے انٹرنیٹ اور سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ‘فیس بک’ پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو مسترد کردیا تھا، لیکن اس مخالفت کی پاداش میں وہ اب جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پابندی کے حکومتی اقدام کے ناقد ایرانی عالم دین آیت اللہ محمد رضا نکونام کو سات ماہ قبل پولیس نے قم شہر سے حراست میں لیا تھا۔ اس کے بعد وہ مسلسل قید ہیں۔ حال ہی میں ان کے طلبا کے ایک گروپ نے رہ براعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں علامہ رضا نیکو نام کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ایران کے فارسی نیوز ویب پورٹل “کلمہ” کی رپورٹ کے مطابق زیر حراست عالم دین محمد رضا نیکو نام قم کے ایک دینی مدرسے کے فقہ کے استاد ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اپنے طلبا سے کہا تھا کہ وہ گھروں میں قیمتی قالین خرید کر رکھنے کے بجائے لیپ ٹاپ خریدیں اور خود کو پوری دنیا کے ساتھ مربوط رکھیں۔ان کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی انسان غاروں میں رہے تواس کا کوئی جواز نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب آپ کو جدید آلات کی مدد سے ایک ارب لوگوں سے مخاطب ہونا چاہیے اوراپنی آواز ان تک پہنچانی چاہیے۔حال ہی میں تہران میں ان کی رہائی کے لیے مظاہرہ کرنے والے ان کے سیکڑوں حامیوں نے پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پران کی فوری رہائی کے مطالبات درج تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ایران میں علما سے متعلق مقدمات کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالتیں بھی آیت اللہ علی رضا نیکو نام کو رہا کرنے اور انہیں انصاف دلانے میں ناکام رہی ہے۔یاد رہے کہ ایران میں سماجی رابطے کی ویب سائیٹس بالخصوص ‘فیس بک’، ‘ٹویٹر’ اور ‘یوٹیوب’ کے استعمال پر پابندی ہے تاہم شہری چوری چھپے ان ٹولز کا استعمال بھی کررہے ہیں