برسلز (نیوزڈیسک)یورپی ممالک کے رہنما بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ پہنچنے والے ہزاروں غیرقانونی تارکینِ وطن کی آبادکاری میں تیزی لانے پر متفق ہوگئے ہیں۔برسلز میں تارکینِ وطن کے معاملے پر جمعرات کو رات گئے تک جاری رہنے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ 60 ہزار تارکینِ وطن کو یورپ کے مختلف ممالک اپنائیں گے۔اجلاس کی صدارت کرنے والے یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ اٹلی اور یونان میں موجود تارکینِ وطن میں سے 40 ہزار کو آئندہ دو برس کے دوران دیگر یورپی ریاستوں میں بسایا جائے گا۔اس کے علاوہ مزید 20 ہزار ایسے تارکینِ وطن کی بھی باز آبادکاری کی جائے گی جن کے آبائی ممالک خانہ جنگی سے متاثر ہیں تاہم یہ تاحال واضح نہیں کہ کتنے تارکینِ وطن کسی یورپی ملک میں سکونت اختیار کریں گے۔تاہم یہ آبادکاری رضاکارانہ طور پر ہوگی اور اجلاس میں تارکینِ وطن کو بسانے کے مجوزہ کوٹہ سسٹم پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔اجلاس کے دوران ڈونلڈ ٹسک نے یورپی ممالک سے کہا کہ وہ کشتیوں میں بھر کر بحیرہ روم عبور کر کے بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ آنے والے ان افراد کا بوجھ اٹھانے میں حصہ ہاتھ بٹائیں۔سربراہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں ڈونلڈ ٹسک کا کہنا تھا کہ یونان اور اٹلی میں موجود تارکین وطن میں سے 40 ہزار کی آبادکاری کے بارے میں یورپی ممالک کی وزراتِ داخلہ رواں برس جولائی تک ایک منصوبہ بنا لیں گی۔خیال رہے کہ سرحدی ادارے فرنٹیکس کے مطابق رواں برس کم از کم ایک لاکھ 53 ہزار تارکینِ وطن نے یورپ میں داخلے کی کوشش کی اور یہ تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 150 فیصد زیادہ ہے۔اٹلی جو کہ لیبیا سے آنے والے تارکینِ وطن کی ابتدائی منزل ہے، چاہتا ہے کہ دیگر یورپی ممالک اس مسئلے سے نمٹنے میں اس کی مدد کریں۔اطالوی وزیرِ اعظم میتیو رینزی نے ان اعدادوشمار پر مایوسی ظاہر کی ہے اور اس منصوبے کو ’عاجزی پر مبنی‘ قرار دیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیناں کے مطابق رواں برس سمندر کے راستے جہاں یونان میں 63 ہزار تارکینِ وطن پہنچے وہیں اٹلی میں یہ تعداد 62 ہزار رہی۔یورپی کمیشن چاہتا ہے کہ وہ تارکینِ وطن کو پورے یورپ میں بسائے لیکن ڈونلڈ ٹسک کا کہنا ہے کہ اس بارے میں جس لازمی کوٹہ نظام کی بات کی گئی تھی اس پر فیصلہ نہیں ہو سکا۔انھوں نے کہا کہ ’اب ہمیں صرف ساتھ دینے کے خالی اعلانات کی نہیں صرف ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔‘فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے اپنے خطاب میں ڈونڈ ٹسک کے موقف کی حمایت کی اور کہا کہ ’پناہ کے حقیقی متلاشیوں کے لیے ہر ملک کو ایسا وعدہ کرنا چاہیے جو پورا ہو۔‘برسلز میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار ڈیمیئن گرامیٹیکس کا کہنا ہے کہ اجلاس میں یورپی یونین کے دو غریب ترین ممالک ہنگری اور بلغاریہ کو تارکینِ وطن کی آبادکاری کے اس منصوبے سے استثنٰی دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے یورپ آنے والے پناہ گزینوں کو کوٹہ کے تحت مختلف ممالک میں آباد کرنے کے منصوبے پر مشرقی یورپ کے ممالک میں اختلاف پایا جاتا ہے اور برطانوی حکومت پہلے ہی کہ چکی ہے کہ وہ اس ’ری لوکیشن‘ یا باز آبادکاری کے منصوبے سے علیحدہ رہے گی۔