بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

داعش نے نمرود کے بعد تاریخی شہر خضر بھی مسمار کردیا

datetime 8  مارچ‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام [داعش] کے جنگجوﺅں نے شمالی عراق کے تاریخی شہر ”نمرود“ کا نام و نشان مٹانے کے بعد اس سے متصل ایک دوسرے تاریخی شہر الخضر میں بھی آثارقدیمہ کو تباہ و برباد کردیا ہے۔کرد میڈیا اور خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق داعشی جنگجوﺅں نے ہفتے کے روز نینویٰ گورنری کے اہم شہر الخضر کو مسمار کرنا شروع کیا اور شام تک شہر کا بڑا حصہ مسمار کر دیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تاریخی اعتبار سے الخضر بھی نمرود شہر ہی کی طرح ایک قدیم اور تاریخی شہر سمجھا جاتا ہے جس میں بعض آثار قدیمہ دوسری صدی عیسوی کے دور کی بھی موجود ہیں۔کردستان لیبر پارٹی کے ایک عہدیدار سعید مموزینی نے میڈیا کو بتایا کہ داعشی جنگجوﺅں نے بلڈوزروں کی مدد سے الخضر قصبے کے آثار قدیمہ مسمار کرنا شروع کردیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ الخضر شہر دو کلو میٹر کے علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ داعش نے شہر میں شب خون مارنے سے قبل وہاں پر موجود سونے اور چاندی کی نوادرات بھی چوری کرلی تھیں۔ سونے اور چاندی کے سکے اور برتن قدیم آشورین شنہشاہوں کے دور کے اس شہر میں موجود تھے۔خیال رہے کہ الخضر موصل شہر سے جنوب میں 80 کلو میٹر کے فاصلے پرواقع ایک خوبصورت اور تاریخی شہر ہے۔ اس وقت یہ نینوٰی گورنری کا حصہ ہے۔ شہر کی تاریخی اہمیت کا انداز اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پر نہ صرف قدیم بادشاہوں کے مخطوطات کی بڑی تعداد موجود تھی بلکہ شہر کے پرانے درختوں اور پتھروں پر بھی تحریریں کنندہ کی گئی تھیں۔ سنہ 1951ئ میں الخضر شہر کو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیے ہوئے اس کی حفاظت یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔الخضر شہر کی قدیم باقیات میں دوسری اور تیسری صدی عیسوی کے آثارقدیمہ بھی شامل ہیں۔ تجارتی اعتبار سے بھی یہ شہر ماضی میں درجہ دجلہ اور فرات کی طرف سے گذرنے والوں کا اہم مرکز رہا۔ غیرملکی حملہ آور بھی اسی راستے سے عراق میں داخل ہوتے۔ اخمینیوں، سلوقیوں، اہل فارس، رومن اور ساسانیوں کے درمیان ہونے والی جنگجوں میں یہ شہر مرکزی اہمیت کا حامل رہا جہاں بڑے بڑے جنگی معرے لڑے جاتے رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس وثقافت کی جانب سے ہفتے کے روز جاری ایک بیان میں الخضر اور نمرود شہروں کی داعش کے ہاتھوں تباہی کی شدید مذمت کرتے ہوئے تاریخی مقامات کو نقصان پہنچانے کو جنگی جرم قرار دیا گیا ہے۔یونیسکو کی خاتون ڈائریکٹر ایرینا بوکوفا نےاپنے ایک بیان میں کہا کہ الخضر میں آثار قدیمہ کی تباہی عراق میں ثقافتی بربادی کا ایک نیا سلسلہ ہے جس جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ داعشی جنگجوﺅں نے ہفتے کے روز بلڈوزوں کی مدد سے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیے گئے شہر الخضر کو تاخت تاراج کردیا ہے۔خیال رہے کہ عراق میں سرگرم دولت اسلامی اسے قبل شمالی شہرنمرود اور موصل میں بھی آثار قدیمہ کو تباہ کرچکی ہے۔ داعش کےہاتھوں تاریخی شہروں کی مسماری کا عمل ایک ایسے وقت میں جاری ہے جب عالمی اتحادی فوج اور عراق فورسز کا داعش کے خلاف ایک بڑا زمینی اور فضائی آپریشن جاری ہے۔ اس آپریشن میں داعش کو شمالی عراق میں مزید پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے.



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…