جمعرات‬‮ ، 14 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

نیپالی سپریم کورٹ کا جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو عام معافی نہ دینے کا اعلان

datetime 1  مارچ‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)نیپال کی سپریم کورٹ نے ملک میں ایک دہائی تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو عام معافی نہ دےنے کا اعلان کردےا۔غےر ملکی مےڈےا کے مطابق نیپال کی سپریم کورٹ کے ایک اہلکار بابو رام داھل نے میڈیا کو بتایا کہ عدالت نے قانون میں موجود عام معافی کے امکان کو ختم کر دیا ہے اور کہا ہے کہ کسی مصالحت کے لیے متاثرین کی رضامندی ضروری ہے۔ دوسری طرف نیپالی حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کا احترام کرے گی۔ حکومتی فورسز اور ماو نواز باغیوں دونوں پر خانہ جنگی کے دوران غیر قانونی ہلاکتوں، لوگوں کو حراست میں لینے اور لاپتہ کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کرنے کے الزامات عائد ہیں۔نیپال میں کئی برسوں سے یہ کوشش ہو رہی تھی کہ ماو نوازوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جاری رہنے والے تنازعے کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کو کس طرح انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ 2006ء میں ختم ہونے والی خانہ جنگی کے دوران سترہ ہزار افراد ہلاک جبکہ دیگر تیرہ سو لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ ہزاروں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا۔ گزشتہ برس ملکی پارلیمان کی جانب سے مصالحتی کمیشنز کے قیام کے لیے ایک قانون بنایا گیا تھا۔ ان کمیشنز کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کو عام معافی دے سکتے تھے تاہم اس قانون کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے جنگی جرائم کے مبینہ افراد کو تحفظ دینے کا بہانہ قرار دیا گیا۔ ایسے افراد میں سے بعض اب بھی فوج اور سیاسی جماعتوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ تین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے یہ فیصلہ سنایا۔ اس موقع پر جنگی متاثرین اور ان کے خاندان کے افراد کی بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ فیصلہ 200 متاثرین کی طرف سے جمع کرائی گئی ایک درخواست پر سنایا گیا جس میں مصالحتی کمیشنز کو دیے گئے اختیارات کو چیلنج کیا گیا تھا۔ متاثرین کے وکیل دنیش تریپاٹھی نے اس فیصلے کو ایک تاریخی عدالتی فیصلہ قرار دیاکہ یہ سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جو چاہتے تھے کہ کمیشن ان کی سہولت کے حساب سے کام کریں۔ تنازعے کے دوران متاثر ہونے والوں نے بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ 2006ء میں حکومت اور باغیوں کے درمیان ہونے والے امن معاہدے میں یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفتیش جنگ بندی کے چھ ماہ کے اندر اندر کرائی جائے گی۔ تاہم مختلف حکومتوں کی طرف سے اس بارے میں کئی گئی کوششیں سیاسی اثر و رسوخ کے باعث کامیاب نہ ہو پائیں۔



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…