قاہرہ(مانیٹرنگ ڈیسک)آثار قدیمہ کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ اہرام مصر کی تعمیر کی پیچیدہ ترین گتھیوں میں سے ایک کا جواب ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہ سوال تھا کہ قدیم دور میں مصریوں نے اہرام مصر تعمیر کرنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ ٹن سے زائد وزنی چونا پتھر کس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔ نئی تحقیق کے مطابق قاہرہ شہر سے باہر ایسا کرنے کے لیے مصریوں نے خاص اس مقصد کے لیے کشتیاں
تیار کی تھیں جس کی مدد سے ان پتھروں کو ڈھویا جاتا تھا۔ اس نئی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چار ہزار قبل، 2550 قبل مسیح میں تعمیر کیے جانے والا کنگ خوفو کا اہرام کیسے تعمیر کیا گیا تھا۔ ماہرین کو ایک عرصے سے اس بات کی آگاہی تھی کہ اہرام کی تعمیر میں استعمال ہونے والے کچھ پتھر گیزا سے آٹھ میل دور تورا کے مقام سے نکالے جاتے تھے جبکہ گرنائیٹ کا پتھر 500 میل دور سے لایا جاتا تھا لیکن اس بات پر محقیقن میں اتفاق نہیں تھا کہ وہ پتھر لاتے کیسے تھے۔لیکن برطانیہ کے چینل فور پر اہرام مصر پر بنائی گئی نئی دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہے کہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے چار سال قبل پاپیریس کا مخطوطہ، ایک کشتی کا ڈھانچہ اور پانی کی گزر گاہ کی اہرام کے پاس سے دریافت کی، جس سے یہ سمجھنے کے لیے نئی معلومات ملیں کہ مصریوں نے کس طرح اہرام مصر تعمیر کیے تھے۔ماہر آثار قدیمہ پیئر ٹیل جنھوں نے گذشتہ چار سال اس پاپیریس کے مخطوطے کو سمجھنے میں صرف کیے، بتاتے ہیں کہ ‘یہ مخطوطہ غالباً دنیا کا سب سے پرانا مخطوطہ ہے۔’پیئر ٹیل کے مطابق اسے لکھنے والے شخص کا نام میریر تھا اور وہ 40 ملاحوں کے گروہ کا سربراہ تھا جن کا کام دریائے نیل کے ساتھ بنائی گئی پانی کی گزر گاہوں سے پتھر ڈھو کر لائے جائیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دو دہائی کے عرصے میں تقریباً 23 لاکھ پتھر اس طرح سے اہرام کے مقام
تعمیر پر لائے گئے تھے۔ 30 سال سے مصر میں کھدائی اور تحقیق کے ماہر مارک لہنر کا کہنا ہے کہ ‘ہم نے اس علاقے اور گذرگاہ کی نشاندہی کر لی ہے جہاں سے پتھر گیزا کے میدان پر لائے جاتے تھے۔’