اتوار‬‮ ، 12 جنوری‬‮ 2025 

تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے زندہ افراد کا پتہ لگانے والے روبوٹ لال بیگ تیار

datetime 10  فروری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نیویارک(نیوز ڈیسک)زلزلے کے بعد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے نیچے سے زندہ بچ جانے والے افراد کی تلاش ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے کیونکہ ملبے کے نیچے جانے والے آلات اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ نیچے جا ہی نہیں پاتے لیکن اب اس مشکل کا حل نکال لیا گیا ہے اور امریکی سائنسدانوں نے ایسا روبوٹ تیار کرلیا ہے جس کی شکل بالکل لال بیگ جیسی ہے اور اسے زلزلے کی صورت میں امدادی کارروائیوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔سائنس دانوں کے مطابق یہ لال بیگ یعنی ننھا روبوٹ کیڑے کی طرح دراڑوں میں سے سکڑ کے گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر اس پر کیمرا لگا دیا جائے تو یہ منہدم ہونے والی عمارتوں میں حفاظتی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سائنسی جریدے ’’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق روبوٹ کے پروٹوٹائپ (ابتدائی بڑے ماڈل) کی جسامت انسانی ہتھیلی جتنی ہے۔تحقیق کے سربراہ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدان کا کہنا ہے کہ لال بیگ کے بارے میں سب سے متاثر کن بات یہ ہے کہ وہ ایک چوتھائی انچ خالی جگہ سے یوں گزر جاتے ہیں جیسے وہ جگہ ڈیڑھ انچ چوڑی ہواور ایسا وہ اپنی ٹانگیں باہر کی سمت مکمل طور پر پھیلا کر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ کیڑے آزادانہ گھوم رہے ہوتے ہیں تو ان کا قد نصف انچ کے قریب ہوتا ہے تاہم ضرورت پڑنے پر یہ اپنا جسم اتنا چپٹا کرسکتے ہیں کہ وہ ایک کے اوپر ایک رکھے ہوئے 2 سکّوں کی اونچائی کے برابر ہو جاتا ہے۔لال بیگ روبوٹ کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لال بیگ نہ صرف شگافوں اور دراڑوں سے گزر سکتے ہیں بلکہ اپنے وزن سے 900 گنا زیادہ بوجھ بغیر زخمی ہوئے اٹھا سکتے ہیں۔ اس روبوٹ نما آلے کا نام کریم (کنٹرولڈ روبوٹ ود آرٹیکولیٹیڈ میکینزم) رکھا گیا ہے اور یہ اپنے قد سے محض نصف اونچی جگہ سے گزر سکتا ہے جب کہ اس کی کمر پر اصل لال بیگ سے مشابہ پلاسٹک کا بنا ہوا سخت خول چڑھا ہوا ہے۔دیگر ماہرین کا کہنا ہیکہ زلزلہ آنے کی صورت میں امدادی کارکنوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ کیا امدادی کارروائی کےآغاز کے لیے ملبہ محفوظ ہے یا نہیں، جب کہ اس سے بھی بڑی مشکل یہ سامنے آتی ہے کہ موجودہ روبوٹوں کی رسائی ملبے کے اندر تک نہیں ہوتی ہے لیکن اس مشکل کو اس روبوٹ لال بیگ نے حل کردیا ہے اور ان لال بیگ کو بڑی تعداد میں عمارت کے ملبے کی دراڑوں، سوراخوں یا نالیوں میں سے اندر داخل کیا جا سکتا ہے جو نیچے دبے ہوئے زندہ افراد کو نہ صرف ڈھونڈھ سکتا ہے بلکہ امدادی کارکنوں کے راستہ بھی تلاش کرسکتا ہے۔



کالم



پہلے درویش کا قصہ


پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…