اسلام آباد (نیوز ڈیسک)امریکی ریاست پینسلوینیا کے ایک ہسپتال میں ایک ایسا مریض لایا گیا جو رات بھر برف میں منجمد رہا تھا، اس کی نبض ڈوب چکی تھی اور جسم برف کی سل بن چکا تھا غرض اس میں زندگی کے کوئی آثار باقی نہیں بچے تھے۔ طبی امدادی کارکن 25 سالہ نوجوان جسٹن اسمتھ کو جائے وقوع سے مردہ سمجھ کر ‘لی ہائی ویلی اسپتال’ لائے تھے لیکن، وہاں ہنگامی امداد کیشعبے میں موجود ڈاکٹر جیرالڈ کولمین نوجوان کو مردہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انھوں نے جسٹن اسمتھ کو زندگی کی طرف واپس لانے کی ایک آخری کوشش کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر ایک معجزہ رونما ہوا، جب جسٹن اسمتھ کے بے جان دل نے دھڑکنا شروع کر دیا ہے۔ یہ ایک انوکھا واقعہ ہے جب ایک انسان 12 گھنٹے ذیلی صفر درجہ حرات میں برف میں منجمد رہنے کے بعد زندہ رہا اور اسے ذہنی اور جسمانی طور پر کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا تھا۔ جسٹن اسمتھ ویک اینڈ کی شب اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ریستوران میں تھا اور اگلے روز وہ سڑک کے کنارے برف میں دبا ہوا پایا گیا۔ میڈیکل ڈیلی کے مطابق جسٹن کو اس کے والد ڈان نے سڑک کے کنارے پڑا ہوا پایا تھا، جن کا کہنا تھا کہ وہ سمجھ چکے تھے کہ جسٹن اب دنیا میں نہیں رہا ہے۔ جس وقت طبی عملہ منظر پر پہنچا تو انھیں جسٹن ایک مردے کی طرح بے جان معلوم ہوا جس کی نا تو سانسیں چل رہی تھیں اور نہ ہی بلند فشارخون تھا اس کا جسم ٹھنڈ سے نیلا پڑ چکا تھا، طبی عملے کو یقین تھا کہ جسٹن مر چکا ہے۔ ہسپتال کی ویب سائٹ کے مطابق جسٹن کو ہسپتال لایا گیا تو ڈاکٹر جیرالڈ کولمین نے اس کا معائنہ کیا تھا لیکن انھیں یقین نہیں تھا کہ وہ مر چکا ہے۔ ڈاکٹر جیرالڈ کولمین نے کہا کہ ‘میرا طبی نظریہ بہت سادہ سا ہے، کہ آپ کو مرنے سے پہلے گرم ہونا پڑتا ہے’۔ میرے اندر سے جیسے کوئی کہہ رہا تھا کہ، مجھے اس نوجوان کو ایک موقع دینا چاہیئے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کی کوششیں لاحاصل بھی ہو سکتی تھیں تاہم انھوں نے عملے کو سی پی آر (طبی تکنیک جس میں مریض کے سینے پر دبا ڈالا جاتا ہے دل کی دھڑکن واپس لانے کے لیے) شروع کرنے کی ہدایت کی اور دو گھنٹے تک ڈاکٹر اور نرسیں دل کو چالو کرنے کے لیے سی پی آر پر عمل کرتے رہے لیکن، اس کا جسم اتنا ہی سرد اور بے جان رہا۔ جسٹن کو ہسپتال پہنچنے کے بعد ڈاکٹروں نے فوری طور پر طبی سرما ذدگی یا ہائپو تھرمیا کے مریضوں کے جان بچانے کے عمل میں مدد دینے والی مشین (ای سی ایم او) کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ یہ مشین خون کو آکسیجن فراہم کرتی ہے۔ اور پھر اس مشین نے کام کر دکھایا اور تین گھنٹے بعد جسم کا درجہ حرارت مخصوص سطح تک پہنچتے ہی جسٹن کے دل نے دھڑکنا شروع کر دیا۔ یہ اس کی زندگی بچانے کی طرف ایک بڑی کامیابی لگ رہی تھی لیکن، ڈاکٹر اب بھی اس کے دماغ کے بارے میں متفکر تھے، جو کئی گھنٹوں سے آکسیجن سے محروم تھا۔ عام طور پر آکسیجن کے بغیر چند منٹوں میں انسان کے دماغ کے خلیات مرنا شروع ہو جاتے ہیں لیکن جسٹن کے کیس میں ایسا نہیں لگ رہا تھا اور ڈاکٹر اب بھی پرامید تھے۔ ڈاکٹر جیمز وو نے اس کیس کیحوالے سے بتایا کہ جب انسان کے جسم کا درجہ حرارت بہت کم ہوتا ہے تو یہ آپ کے دماغ اور دوسرے اعضا کے افعال کو محفوظ کر سکتا ہے۔ ڈاکٹروں نے چار ہفتے تک جسٹن کے ہوش میں آنے کا انتطار کیا اس کا دماغ اس واقعے سے متاثر نہیں ہوا تھا لیکن فراسٹ بائٹ کی وجہ سے اس نے پیروں کے انگوٹھے اور ہاتھ کی دونوں چھوٹی انگلیاں کھو دی ہیں۔ ڈاکٹر جیرالڈ کولمین نے کہا کہ جسٹن غیر معمولی طور پر خوش نصیب ہے اور یہ واقعہ طبی تاریخ میں ایک معجزے سے زیادہ ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق شدید سردی ہمارے جسم کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے یہ سانس اور دل کی رفتار کو سست کر دیتی ہے اور اگر جسم کا درجہ حرارت زیادہ گر جائے تو بے ہوشی یا پھر موت واقع ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ہمارا جسم صحیح درجہ حرارت کی شرح میں سرد ہو جائے تو، نظام استحالہ(میٹا بولزم)سست پڑ جاتا ہے اور اس طرح خلیات کو زیادہ آکسیجن کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ اس غیر معمولی کیفیت میں آکسیجن کی کمی سے جنم لینے والا نقصان مریض کو زیادہ متاثر نہیں کرتا ہے۔ اس حالت میں مریض سانس لے سکتا ہے لیکن اس کی دل کی دھڑکن کو سنا نہیں جا سکتا ہے نا ہی اس کا درجہ حرارت معلوم کیا جا سکتا ہے