اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) خوبصورت وادیاں، برف پوش چوٹیاں اور بل کھاتی ندیاں قدرت کے زمین پر اتارے ہوئے وہ تحفے ہیں جن کی دید ہر فرد کی تمنا ہوتی ہے۔ ایسے ہی چند پرفضامقامات یہ بھی ہیں جہاں جانے کیلئے جان ہتھیلی پر رکھنا اولین شرط ہے۔ناروے کی ٹرولز ٹنگ سطح سمندر سے گیارہ سو میٹر کی بلندی پر واقع اس چوٹی کا نظارہ دھڑکنوں کو روک دیتا ہے۔ اس چوٹی کے نظارے کیلئے جانے اور واپسی میں کل آٹھ سے دس گھنٹے صرف ہوتے ہیں تاہم یہاں پہنچنے پر جو منظر آنکھوں کو دکھائی دیتا ہے وہ اس تھکن کے آگے ہیچ ہوجاتا ہے۔ برف پگھلنے کے سیزن میں یہاں ہائیکرز کی بہتات ہوجاتی ہے۔
بھارت کی پہلی قدرتی چونے کی غار سیجو اور اس سے ملحقہ علاقہ بھی خطرناک مگر بے حد خوبصورت ہے۔ اس علاقے میں رسیوں سے تیار کیا گیا ایک پل بھی ہے۔ اگر آپ ہمت والے ہیں تو دو پہاڑی چوٹیوں کو ملانے والے اس پل کی سیر کرنا مت بھولیں۔ اگر آپ اس پل کو کامیابی سے پار کرلیں گے تو ایسے میں آپ کے اندر گلگت بلتستان کو ملانے والے حسینی پل کو پار کرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوجائے گا جو کہ رسی کے جال پر لکڑی کے تختے رکھ کے بنایا گیا ہے۔ یہ بالائی ہنزہ میں بوریت جھیل کے دونوں کناروں کو ملاتا ہے۔ اس علاقے میں آنے والے سیاحوں میں اپنی بہادری ثابت کرنے کیلئے اس پل کی سیر عام بات ہے۔ ایسا ہی ایک پل سوئس ایلپس کے دو حصوں کو ملتا ہے۔ یہ سو میٹر اونچا اور170میٹر طویل پل اس پہاڑی سلسلے کا مقبول ترین پل ہے۔
ماچو پیچو کے آثار کا تذکرہ تو آپ نے خوب سنا ہوگا تاہم اس علاقے سے ملحقہ ہویانا پچو نامی پہاڑ سے اس پورے علاقے میں پھیلے ہوئے اس تہذیب کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس پہاڑ پر چڑھائی کیلئے انتہائی خطرناک، عمودی اور چکنی سیڑھیاں چٹانوں کو کاٹ کاٹ کے تخلیق کی گئی ہیں جس پر چڑھنا صرف ان کا ہی کام ہوتا ہے، جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ یہاں سے واپسی پر فرانس کے مونٹ بلانک باکس پر قدم رکھیں۔ یورپ کی بلند ترین چوٹی کے اوپر تعمیر کیا گیا یہ شفاف شیشے کا پلیٹ فارم پورے علاقے کا تین سو ساٹھ ڈگری کے زاوئیے پر نظارہ دیکھنے میں مدد دیتا ہے۔
چین کی ہواشان پہاڑی بھی مہم جو سیاحوں کیلئے اپنی جرات آزمانے کا ایک دلچسپ ذریعہ ہے، انتہائی خطرناک سیڑھیوں، لکڑی کے چھوٹے تختوں کی مدد سے اس عمودی پہاڑ پر چڑھنا کمزور دل والوں کا کام ہرگز نہیں۔سپین کی ” لٹل پاتھ وے آف دی کنگ“ سپین کی خطرناک چٹانوں پر چڑھائی کے لئے بنایا جانے والا ایک خطرناک راستہ ہے جسے گزشتہ صدی کے آغاز پر تعمیرکیا گیا تھا۔ یہ پل آج بھی مہم جوئی کے شوقین افراد میں مقبول ہے تاہم آج تک اس کی مرمت نہیں کی گئی ہے اور یہ تاحال زیراستعمال ہے۔ افریقہ کے بلند ترین آبشار وکٹوریہ فالز کے گرنے سے بننے والی جھیل ڈیولز پول کا مکمل نظارہ دیکھنے کے چکر میں سینکڑوں سیاح اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مقامی ٹورازم انڈسٹری کی جانب سے خبردار کئے جانے کے باوجود بھی سیاح یہاں کا رخ کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔
فلم دی پرنسز برائیڈ میں ”کلفس آف انسینیٹی کے نام سے جو پہاڑ دکھائے گئے تھے وہ آئرلینڈ میں واقع ہیں۔ یہ دنیا کا خطرناک ترین بائیکنگ ٹریک ہے جہاں پر ٹریک کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی چار فٹ ہے۔
دنیا کی پر کشش جگہیں جہاں جانے کیلئے جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے
18
اکتوبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں