لاہور (نیوز ڈیسک) مشرقی و مغربی ممالک ، ہر جگہ طلاق کا عنصر معاشرے میں عام پایا جاتا ہے اور اس مرحلے کو فریقین کے مابین خوش اسلوبی سے طے کروانے کیلئے قانون سازی بھی کی گئی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بھی کچھ ممالک میں طلاق کے حوالے سے ایسے عجیب و غریب قوانین سننے کو ملتے ہیں کہ جوڑے کے مابین علیحدگی سے زیادہ توجہ اس قانون کے پس منظر پر چلی جاتی ہے۔ ایسے ہی کچھ قوانین مندرجہ ذیل ہیں:
شادی یوں تو کوئی ہنسی مذاق یا کھیل نہیں ہے لیکن امریکی ریاست ڈیلاویئر میں اگر آپ ایسا کر بیٹھیں تو قانون آپ کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی شخص ”مذاق“ یا ”جوش“ میں آ کر شادی کر بیٹھے تو وہ طلاق کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ ایسے کئی کیسز ہیں جن میں لوگوں نے شراب کے نشے میں دوستوں کے ساتھ بازی لگائی اور مذاق مذاق میں شادی کر لی جسے بعد میں منسوخ کرنا پڑا۔
شمالی و جنوبی امریکہ کے بعض شہروں میں چالباز نندوں اور سسرالیوں کیلئے شادی ختم کرواناخاصہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہاں کے قانون میں شوہر یا بیوی کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو کوئی شادی ٹوٹنے کا ذمہ دار ہونے پر بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔ نیو میکسیکو اور مِسِسپی سمیت امریکا کی سات ریاستوں میں نافذ اس قانون میں متاثرہ پارٹی کو حقائق کے ساتھ یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ فلاں شخص کی وجہ سے اس کی شادی ٹوٹی۔
نیویارک میں اگر آپ ثابت کر سکیں کہ آپ پارٹنر دماغی طور پر عدم توازن کا شکار ہے تو اس بنیاد پر آپ طلاق حاصل کر سکتے ہیں۔ شرط ہے کہ شادی کے دوران کم سے پانچ سالوں تک آپ کے پارٹنر کی ذہنی حالت خراب رہی ہو۔
آسٹریلیا کے قدیم مقامی باشندوں میں خواتین کے پاس طلاق حاصل کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی اور سے شادی کر لے۔ اس طرح پہلی شادی منسوخ ہو جاتی ہے۔ یہ طریقہ آسان تو ہے، لیکن ظاہر ہے اگلی شادی کا ٹوٹنا بھی اتنا ہی آسان ہوگا۔
فلپائن میں مسلمانوں کے علاوہ باقی لوگوں کے لیے طلاق غیر قانونی ہے۔ اس کے علاوہ 98 فیصد کیتھولک عیسائی آبادی والے ملک مالٹا میں بھی طلاق غیر قانونی ہے۔ 1997ئ سے پہلے تک بہت سے یورپی ممالک میں بھی یہی صورت حال تھی جو اب بدل چکی ہے۔
جب اسکیمو لوگ طلاق کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو سب سے پہلے ایک دوسرے سے الگ رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح الگ رہنے کا مطلب ہی طلاق ہوتی ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک خاص کر پاکستان و بھارت میں عدالتی کارروائیوں کے سالہا سال جاری رہنے کے سبب یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آخر کار جب فریقین کے مابین طلاق طے پاجائے تو وہ اس طویل عمل سے گزرنے کی خوشی میں پارٹی دیں تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ نیویارک اور امریکا کے دوسرے بڑے شہروں میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو طلاق پارٹی منعقد کرتے ہیں۔ کئی بار انتہائی پرجوش اور بھڑکیلے انداز والی تو کبھی کبھار کافی پرسکون طلاق پارٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ جن میں طلاق لینے والی عورت یا مرد اپنے دوستوں اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لاس ویگاس، لاس اینجلس اور نیو یارک جیسے شہر ایسی پارٹیوں کا گڑھ ہیں۔
طلاق ہو تو ایسی
10
اگست 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں