اسلام آباد (نیوزڈیسک )دنیا میں فلاحی ورکرز کی طرف سے عوامی بہبود کے کاموں کی کئی اعلیٰ مثالیں موجود ہیں لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسے شخص کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جو زندگی بھر اپنا نایاب خون دے کر نوزائیدہ بچوں کی جانیں بچاتا رہا اور اب تک 20لاکھ بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچا چکا ہے۔78سالہ آسٹریلوی شہری جیمز ہیریسن کے جسم میں ایسا نایاب خون ہے جس میں اینٹی باڈیز کی وہ قسم پائی جاتی ہے جو بچوں کو آرایچ فیکٹر کے ہاتھوں مرنے سے بچاتی ہیں۔ جیمز 18سال کے تھے جب سے وہ اپنے خون کا عطیہ دے رہے ہیں اور اس وقت ان کی عمر 78سال ہے، اب تک وہ ایک ہزار سے زائد خون کے عطیات دے چکے ہیں۔ جب جیمز نے خون کے عطیات دینا شروع کیے تو ان کے خون کو اس قدر قیمتی سمجھا گیا کہ ان کی 10لاکھ آسٹریلوی ڈالر کی لائف انشورنس کروائی گئی۔ان کے نایاب خون کی وجہ سے انہیں ”سونے کی بانہوں والا آدمی“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 1951ء میں 14سال کی عمر میں جیمز کے سینے کا آپریشن ہوا اور ان کا ایک پھیپھڑا نکال دیا گیا۔ جیمز کہتے ہیں کہ جب مجھے آپریشن تھیٹر سے باہر لایا گیا تو میرے والد نے مجھے بتایا کہ اجبنی لوگوں نے 13لیٹر خون دے کر میری جان بچائی ہے۔ تب میں نے تہیہ کیا کہ جب میری عمر 18سال ہو گی تو میں بلڈ ڈونر بنوں گا۔ جیمز نے اس دوران انکشاف کیا کہ ”اگرچہ میں ساری عمر خون کے عطیات دیئے ہیں لیکن میں نے کبھی خون نکالتے وقت سوئی اپنے بازو میں لگتے ہوئے نہیں دیکھی۔
مزید پڑھئے:چشتیا ں میں نجی ہسپتال میں عجیب الخلقت بچے کی پیدائش
جب نرس میرے بازو میں سوئی لگانے لگتی ہے تو میں نرس کی طرف دیکھتا رہتا ہوں یا پھر چھت پر لگے پنکھے کی طرف۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ سے سوئی کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی اور میں اپنے جسم سے خون نکلتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے جو سکون دوسروں کو خون دے کر ان کی جانیں بچانے میں ملتا ہے میں اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔