تاہم زیادہ تر واقعات میں لڑکیاں ہی نقصان اٹھاتی ہیں کیونکہ آخر میں وہ کسی اجنبی ملک میں تنہا رہ جاتی ہیں۔ حکام کے مطابق ان میں سے زیادہ تر لڑکیوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ایسے کرنے سے انہیں کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔برطانیہ کی جانب سے سرحدوں کی نگرانی سخت کرنے کے بعد انسانی اسمگلنگ کے اس نئے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ میں انسداد جرائم کے ملکی ادارے کے مطابق برطانیہ ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جہاں مشرقی یورپ سے لڑکیاں لا کر شادی کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب یورپی پولیس کے محکمے ’یورو پول‘ نے گزشتہ برس اسے ایک ہنگامی مسئلے کے طور پر شناخت کیا تھا۔ لٹویا میں تو یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہو چکا ہے کہ حکومت کو لڑکیوں کو روکنے کے لیے ایک ہنگامی پروگرام تک شروع کرنا پڑا۔برطانوی حکام کے مطابق ملک میں ہر سال مقامی شہریوں سے جعلی شادی یا پیپر میرج کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں اور اس کے مقابلے میں مشرقی یورپ سے لائی جانے والی لڑکیوں سے شادی کرنے کے واقعات قدرے کم ہیں۔ اس سلسلے میں ایسے افراد زیادہ تر اسکاٹ لینڈ جانا پسند کرتے ہیں، جہاں کوئی بھی لڑکی 16 سال کی عمر میں ہی والدین کی اجازت کے بغیر شادی کر سکتی ہے۔ سماجی تنظیموں کے مطابق مشرقی یورپ سے اس مقصد کے لیے لائی جانے والی زیادہ تر لڑکیاں کلارا بالوگووا کی طرح انتہائی غریب ہوتی ہیں جبکہ اکثر غیر تعلیم یافتہ بھی ہوتی ہیں اور وہ مغربی یورپ میں رہنے کے لیے شادی کرنے تک پر راضی ہو جاتی ہیں۔